سیاسی وابستگی اوراختلاف کو چولہے میں ڈالیے۔ ایک پاکستانی کے طور ہم سوچ سکیں تو سوال ایک ہی ہے: ہمارا کیا بنے گا؟ کیا کوئی ایک شعبہ زندگی ہے جہاں ہم نے کوئی منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ ہمارے اہداف کیا ہیں اور اگلے دس سال میں ہم نے کہاں کھڑا ہونا ہے؟
تعلیم سے آغاز کر لیتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ہماری کوئی تعلیمی پالیسی ہے؟ کیا کبھی کسی حکومت نے غور کیا یا پارلیمان میں اس پر بحث کی کہ ہمیں نظام تعلیم کو کن اصولوں پر استوار کرنا ہے؟ کیا کبھی کسی نے اس نکتے پر کوئی منصوبہ بندی کی کہ ہماری ضروریات کیا ہے اور کیا ہمارا تعلیمی ڈھانچہ اس ضرورت سے ہم آہنگ ہے؟ کیا تھوڑا سا رٹا لگا کر حاصل کی گئی یہ ایف اے اور بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں ہمارے کسی کام کی ہیں؟ ایف اے، بی اے اور ایم اے کی ان ڈگریوں کی عملی زندگی میں کیا افادیت ہے؟ ان لایعنی قسم کی ڈگریوں کے انبار لیے جو تعلیم یافتہ نوجوان عملی زندگی میں آ رہے ہیں انہیں کہاں کھپایا جائے گا؟ کیا کبھی کسی نے ایف اے، بی اے یا ایم اے کے انبار اور فنی تعلیم کے بیچ کسی توازن کو قائم کرنے کی ضرورت پر کوئی بات کی؟ کبھی غور کیا گیا کہ ہمیں اردو میں تعلیم دینی ہے یا انگریزی میں؟ نصاب تعلیم کیا ہو گا اور اس کا تعین کیسے ہو گا؟ سرکاری تعلیمی ادارے پرائیویٹ اداروں کی نسبت اچھے اساتذہ رکھنے اور اچھے انفراسٹرکچر رکھنے کے باوجود پیچھے کیوں رہ گئے؟ کیا ہم قانون سازی کر سکتے ہیں کہ ہر سیاستدان اور ہر سرکاری ملازم کی اولاد سرکاری اداروں میں پڑھے گی تا کہ احساس کمتری کم ہو اور اصلاح احوال بھی ہو سکے؟ کیا کبھی آپ نے پارلیمان میں، کسی پریس کانفرنس میں، کسی جلسہ عام میں کہیں بھی اہل سیاست کو اس موضوع پر بات کرتے دیکھا اور کیا کبھی کوئی وزیر تعلیم ان موضوعات پر غور کرتا پایا گیا؟
صحت کو دیکھ لیجیے۔ کیا آپ میں سے کوئی صاحب ہیں جنہیں معلوم ہو ہماری صحت کی پالیسی کیا ہے؟ نسلوں کے اقتدار کے سارے سامان موجود ہیں اور عشروں کے اقتدار کے مزے بھی لیے جا چکے ہیں کون سا حاکم ہے جس نے پاکستان سے اپنا علاج کروانا مناسب سمجھا ہو۔ پاکستان ان کے لیے وہ چراگاہ ہے، بہار موسم میں جہاں پیٹ کا جہنم بھرا جاتا ہے۔ وقت کا موسم بدلے اور دو چھینکیں آئیں تو چیک اپ کے لیے لندن اور امریکہ سے کم انہیں کوئی طبیب اچھا نہیں لگتا۔ معیار کا یہ حال ہے آپ نالائق ہیں اور آپ کا میرٹ نہیں بن سکا لیکن آپ کی تجوری کا حجم اچھا ہے تو آپ کو مسیحا بنانے کے لیے پرائیویٹ میڈیکل ہسپتال موجود ہیں۔ تھوڑی سی سرمایہ کاری کریں اور پھر عمر بھر وصولی فرما کر ملک اور قوم پر احسان فرماتے رہیں۔ ملی بھگت کی کہانی ایسی دل ربا ہے کہ میڈیکل ریپ سے معاملہ کر کے انسائیکلو پیڈیا کے سائز کے نسخے لکھتے رہیے، گاڑی بھی مل جائے گی اور بیرونی دورے بھی۔ کارپوریٹ کلچر کا ایسا حسن مجسم ہو چکا کہ مریض کو دو چھینکیں آ جائیں تو نصف درجن ٹیسٹ لکھ دیے جاتے ہیں کہ مریض ٹیسٹ کرانے کسی بھی لیبارٹری میں جائے، اس کا کمیشن تو پروین شاکر کے ہرجائی کی طرح لوٹ کر ڈاکٹر صاحب ہی کے پاس آنا ہے۔ اقوال زریں بہت ہیں لیکن عالم یہ ہے کہ آئین پاکستان میں رسمی طور پر لکھے گئے بنیادی انسانی حقوق میں صحت کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں۔ عزیز ہم وطنوں کو شاید معلوم ہی نہ ہو کہ تہتر کے آئین کے تناظر میں صحت ان کا بنیادی انسانی حق نہیں ہے۔
معیشت کو دیکھ لیجیے۔ کہیں کوئی معاشی پالیسی ہو تو بتا دیجیے۔ ہر حکومت قرض لیتی گئی اور کسی حکومت نے اس سوال پر غور نہیں کیا کہ قرض واپس کیسے کرنا ہے۔ آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دفاعی اخراجات سے بھی کچھ زیادہ آپ کے قرض پر سود اور اقساط کی ادائیگی ہے۔ کیا پارلیمان میں کبھی یہ اکابرین اس بات پر غور کرتے پائے گئے کہ قرض کے اس شکنجے سے نکلنے کی کیا پالیسی وضع کی جائے؟ کسی سیاسی جماعت میں کہیں اس معاملے میں کوئی فکری مشق ہوئی ہو تو بتائیے۔ بس قرض لے لیجیے اور بجٹ بنا کر ایک عدد مالی سال گزار لیجیے، اس کے سوا ہماری کیا پالیسی رہی ہے؟ ہم زرعی ملک ہیں کیا ہم نے اپنے زرعی امکانات تلاش کرنے کے لیے آج تک کوئی پالیسی بنائی ہے کہ اگلے دس سالوں کے لیے ہمارے اہداف یہ ہیں اور زراعت کی دنیا میں اتنے ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کا ہدف اتنے سالوں میں پورا کرنا ہے؟ کیا کبھی کسی حکومت نے سعودیہ سے بات کر کے دیکھنے کی کوشش کی کہ حج کے موقع پر تھوڑا سا لائیو سٹاک پاکستان سے بھی منگوا لیا جائے؟ ہمارے کمالات کا عالم تو یہ ہے کہ زرعی ملک میں زرعی یونیورسٹیاں بنائی جاتی ہیں اوروہ زراعت میں جدید تحقیق کی بجائے صحافت اور قانون کی تعلیم دینا شروع کر دیتی ہیں۔
معاشرے اپنے سماج کی تہذیب سے ترقی کرتے ہیں۔ کیا ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے اس سماج کی تہذیب کا کوئی منصوبہ دیا؟ جو آیا اس نے ہیجان میں اضافہ ہی کیا اور پولرائزیشن کا زہر معاشرے کی رگوں میں انڈیل دیا۔ عصبیت اور نفرت کی بنیاد پر سبھی نے اپنے اپنے جتھے منظم کیے اور پھر مختلف عنوانات سے ان کا فکری استحصال کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہاں معقول بات کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرے کی تربیت کا کہیں کوئی میکنزم ہی نہیں رہا۔ ہمیں اختلاف رائے کی بنیادی آداب معلوم نہیں اور معلوم ہیں تو ہم ان سے بے نیاز ہیں۔
پون صدی ہونے کو ہے اور ہمارا دائروں کا سفر ختم ہونے میں نہیں رہا۔ فکر سے لے کر عمل کی دنیا میں، ہم نے اس ملک کو تجربہ گاہ بنا رکھا ہے اور تجربوں پر تجربے کیے جا رہے ہیں۔ کوئی فلسفہ حیات نظر نہیں آ رہا۔ کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ کیا ملک اس طرح چلتے ہیں؟