سیاسی جماعتوں کے کالم نگار کارکنان، اور تجزیہ کار رہنمائوں، نے شور مچایا ہوا ہے فلا ں جماعت کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ ہر دو ر میں شور مچانے والے قلمی قلی تبدیل ہو جاتے ہیں، لیکن ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ صرف اپنے اپنے سیاسی آقائوں اور ممدوحین کے دکھوں پر قوم کو رلا دینا چاہتے ہیں۔ انہیں کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس پر بھی لکھیں کہ یہ قانون جب عام آدمی پر لاگوہوتا ہے تو کیسے لاگو ہوتا ہے ا ور اس کی قہر سامانیوں کا عالم کیا ہوتاہے۔ ان کی انسان دوستی اور قانون شناسی کے تبخیری مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کبھی پانچ دس سال بعد قانون ان کے آقائوں کی دہلیز پر مہربان سی ایک دستک دیتا ہے۔ یہ اس سے ہمیشہ بے نیاز رہتے ہیں کہ یہ قانون باقی عوام کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
اس نظام قانون کا کمال دیکھیے، سارا قانون انگریزی میں ہے لیکن عوام کی غالب اکثریت انگریزی جانتی ہی نہیں۔ اس کے باوجود قانون نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی، ہاتھ میں ڈنڈا تھام رکھا ہے اور اس کا دعوی یہ ہے کہ "قانون سے لا علمی کوئی عذر نہیں"۔ قانونی حلقوں میں بڑے اہتمام سے یہ قول زریں مزے مزے لے کر پڑھا جاتا ہے کہ جنٹل مین، اگنورنس آف لاء از نو ایکسکیوز۔
بے نیازی دیکھیے کہ سارا قانون ایک اجنبی زبان میں لکھ رکھا ہے اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ خبردار تم نے قانون توڑا تو یاد رکھنا کہ "قانون سے لا علمی کوئی عذر نہیں"۔ کیسا عجیب و غریب نظام قانون ہے جس میں لوگوں کی اکثریت کو معلوم ہی نہیں قانون ہاتھی کی طرح ہے یا لومڑی جیسا۔ عمومی قسم کے جرائم سے لوگوں میں ایک فطری آ گہی ہے لیکن بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اچانک کسی قانون کی گرفت میں آ جاتے ہیں اور پھر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے قانون توڑا ہے۔ وہ ہاتھ باندھ کر التجا کرتے ہیں ہمیں تو معلوم ہی نہیں ہم نے کون سا قانون توڑا ہے۔ قانون آگے سے اپنی آنکھ پر لگی پٹی کی گرہ مزید مضبوط کر کے کہتا ہے: چپ ہو جا نا ہنجار، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ، اگنورنس آف لاء از نو ایکسکیوز۔
یہ قدیم برطانیہ کے جاگیردار معاشرے سے جنم لینے والا اصول تھا۔ جب مختلف بادشاہوں نے مل کر ایک متحدہ انگلستان بنایا تو ان کے سامنے سوال اٹھا کہ قانون کون سا ہوگا۔ انہوں نے طے کیا کہ اس سے پہلے تمام بادشاہوں کی عدالتوں میں سب کے ہاں جو مشترک قوانین تھے وہی اب قانون قرار پائیں گے۔ یہ قوانین چونکہ سب کے ہاں رائج تھے اس لیے اسے کامن لاء کہا گیا۔
کامن لاء کو نافذکر نے کے بعد لوگوں سے کہا گیا کہ دیکھو ہم وہ قانون لائے جو سب میں کامن، تھا، ہم کوئی مشکل قانون نہیں لائے، یہ ہمارا اپنا قانون ہے اور ہماری اپنی زبان میں ہے اور کامن ہونے کی بنیاد پر ہم سب اس سے آگاہ ہیں۔ اس لیے اس پر عمل کیا جائے اور یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ کسی کو قانون کا علم نہیں ہے، اگنورنس آف لاء از نو ایکسکیوز۔
بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے بعد جب یہاں کامن لاء، مسلط کیا گیا تو وہ انگریزی زبان میں تھا۔ یہ قابض قوت کی زبان تھی۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ مقامی آبادی کو قانون کی سمجھ آتی ہے یا نہیں۔ ان کا مقصد اپنا قبضہ مستحکم کرنا تھا اور لوگوں کو محکوم بنا کر رکھنا تھا۔ چنانچہ مقامی آبادی پر اجنبی زبان میں قانون نافذکر کے ان کی توہین، تذلیل اور تضحیک کرتے ہوئے بے نیازی سے کہہ دیا گیا کہ: اگنورنس آف لاء از نو ایکسکیوز۔
انگریز اہلکار اور افسران تو اس قانون سے واقف تھے لیکن مقامی لوگ واقف ہی نہ تھے۔ برطانوی نو آ بادیاتی نظام نے فیصلہ کیا کہ انگریز اور محکوم رعایا کے بیچ رابطے کے لیے ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو نسل اور خون کے اعتبار سے تو مقامی ہو مگر اس کے سوچنے کا اندا ز انگریزوں جیسا ہو۔ چنانچہ باقاعدہ کتابیں لکھ لکھ کر مقامی جنٹل مین، تیار کیے گئے۔ یہ مقامی جنٹل مین جب افسر شاہی میں شامل کیے گئے تو انہوں نے عوام کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دیا جو انگریز کرتے تھے۔ نفرت حقارت اور تذلیل۔
پاکستان بنا تو یہی افسر شاہی اسی قانون کے ساتھ ہمارے حصے میں آ ئی۔ اسے معلوم تھا کہ مقامی زبان میں قانون اور نظام آ گیا تو ان کی نو آبادیاتی شان کم ہو جائے گی۔ انگریز مقامی لوگوں سے فاصلہ رکھتے تھے، انہوں نے بھی وہی فاصلہ رکھا۔ وہ مقامی زبان میں بات نہیں کرتے تھے، یہ بھی لوگوں سے انگریزیاں، مار کر بات کرنے لگے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک اس افسر شاہی کے چنگل میں یوں پھنسا کہ آج تک نہیں نکلا۔
قومی زبان اردو ہے مگر آئین میں یہی بات انگریزی میں لکھی گئی ہے۔ آئین تک قومی زبان میں لکھنا گوارا نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ آئین ہے کیا؟ آئین کے احترام کی ساری باتیں سیاسی اور ابلاغی اشرافیہ کی فکری عیاشی بن چکی ہے، عام آدمی اس تکلف سے بے نیاز ہے۔
وکیل پاکستانی، جج پاکستانی، مدعی پاکستانی، مدعا علیہ پاکستانی، مگر عدالتوں میں انگریزی میں مقدمے چل رہے ہوتے ہیں۔ سائلین اور فریقین سماعت کے دوران ساتھ کھڑے ہوتے ہیں مگر بعد میں پوچھ رہے ہوتے ہیں وکیل صاحب اندر کیا بات ہوئی ہے؟
رہی سہی کسر کامن لاء کی عدالتی نظیر کے اصول نے پوری کر دی۔ قانون اب صرف وہ نہیں جو انگریزی کی کتابوں میں لکھا ہے۔ وہ بھی قانون ہے جو تشریح کے باب میں اعلی عدالتوں نے وضع کر رکھا ہے۔ ایک عام آدمی اب کیسے جان سکتا ہے کہ چار صوبوں کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کیا کیا فیصلے ہوئے ہیں؟ وہ تو انگریزی میں لکھے گئے قانون سے بھی لاعلم ہے اور انگریزی میں لکھے گئے فیصلوں سے بھی لاعلم ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ وکیل کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔ مہنگا وکیل، اور مہنگا وکیل اور مہنگا وکیل۔ سستے انصاف نے سب کی دوڑ لگائی ہوئی ہے۔
ایسٹ انڈیا کے چیئر مین میجر جنرل سر آرچی بیلڈ گیلوے نے اسی زمانے میں کہہ دیاتھا کہ یہاں انگریزی جیسی اجنبی زبان میں قانون لاگو کرنا ظلم کے نئے دروازے کھول دے گا۔ چونکہ آرچی بیلڈ گیلوے نے یہ بھی لکھ دیا کہ اسلامی نظام قانون دنیا کا بہترین نظام قانون ہے اس لیے ایک عرصہ تک اس کی کتابیں ہی غائب کر دی گئیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے برصغیر میں مغلوں کے دور اقتدار کے انتظامی ا ور قانونی ڈھانچے کی دستاویزات غائب کر دی گئیں۔ تاکہ سب کو یقین دلایا جا سکے کہ انگریز سرکار سے پہلے یہاں نہ کوئی قانون تھا نہ عدالت تھی۔ سب جاہل تھے۔
انگریز کو گئے سات عشرے ہو گئے۔ ہمارے مقامی جنٹل مین اب بھی اجنبی زبان سے قاانون کی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش میں پانی میں مدھانی چلائے جا رہے ہیں۔ ہے کوئی ہم سا یا ہمارے قانون جیسا؟