دو لوگ کان پکڑے مرغا بنے ہوئے ہیں اور معززین علاقہ ان سے تفتیش فرما رہے ہیں۔ ویڈیو پر نظر پڑی تو خیال آیا یقینا یہ کسی سنگین جرم میں ملوث ہوں گے۔ اسلام آباد میں اگلے روز ایک خود کش حملہ ہوا جس میں ایک پولیس اہلکار شہید ہوگیا۔ اس کے بعد سے اسلام آباد میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور جدھر جائیں ناکے لگے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد انتظامیہ نے لوگوں سے درخواست کر رکھی ہے کہ جہاں کہیں جانا ہو بیس پچیس منٹ کا مارجن رکھ کر نکلیں کیونکہ راستے میں تفتیش ہو سکتی ہے اور اس میں وقت لگ سکتا ہے۔ اس لیے پہلا خیال آیا کہ یہ دونوں دہشت گرد ہوں گے جو پکڑ لیے گئے ہیں اور اب معززین علاقہ ان سے تفتیش فرما رہے ہیں۔
لیکن پھر سوچا کہ دہشت گرد ہوتے تو یوں مسکینی سے مرغا بنے، ہاتھ جوڑ جو ڑ کر معافیاں تھوڑی مانگ رہے ہوتے۔ دہشت گرد اس طرح عام لوگوں کے قابو میں بھی کیسے آتے۔ یقینا ان کا جرم کوئی اور ہے۔ ہو سکتا ہے بردہ فروش ہوں یا پھر انہوں نے کوئی گاڑی چوری کرنے کی کوشش کی ہو۔ طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ چنانچہ میں نے ویڈیوان میوٹ کی اور سننے لگا کہ واقعہ کیا ہوا ہے۔
پڑیے اور سر پیٹ لیجیے کہ ان دونوں کا جرم صرف اتنا سا تھا کہ انہوں نے بھوک سے مجبور ہو کر شادی کی کسی تقریب میں بن بلائے شامل ہو کر کھانا کھانے کی کوشش کی اور پکڑے گئے۔ چنانچہ اب معززین علاقہ انہیں مرغا بنائے کھڑے تھے اور تفتیش کا عمل جاری تھا۔ کوئی دانتوں میں خلال کرتا اور ضرورت سے کافی زیادہ منہ کھول کر ان سے پوچھتا ہے کہ وہ کس شہر کے ہیں اور دوسرا معزز طول و عرض میں پھیلی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مشوورہ دیتا ہے کہ اس مجرم کو شادی ہال والوں کے سپرد کیا جائے۔ اتنے میں برسات کے بغیر ہی ایک تیسرا معزز طلوع ہوتا ہے اور وہ فیصلہ سناتا ہے کہ یہ ساری سازش ہی شادی ہال و الوں کی ہے۔ اس لیے پہلے چل کر ذرا ان سے دو دو ہاتھ کر لیتے ہیں۔
اس سے زیادہ یہ ویڈیو مجھ سے دیکھی نہیں دیکھی۔ متلی ہونے لگی۔ کراہت آنے لگی۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جو مسکین کو کھانا کھلا نے کے حکم کو بھول چکا ہے۔ اتنی سفاکی تو جنگل کے درندوں میں بھی نہ ہوگی کہ کسی کو صرف اتنی سی بات پر یوں رسوا کیا جائے کہ اس نے بن بلائے کھانا کھا لیا۔ یہ بھی کوئی جرم تھا کہ اس پر کسی کی یوں تذلیل کی جاتی؟
میں نے ایک بار پھر ویڈیو دیکھنا شروع کر دی۔ " مجرم " ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ وہ اپنے چہرے مہرے سے کوئی اوباش لوگ نہیں رہے تھے۔ بھلے سے لوگ تھے۔ کیا معلوم کتنے فاقوں کے بوجھ سے ان کی کمر دہری ہوگئی ہو اور کس بے بسی کے عالم میں ووہ شادی کے مہمانوں میں شامل ہو گئے ہوں کہ اس بہانے کھانا تو ملے گا۔ کیا یہ کوئی ایسا جرم تھا جس پر سزا دی جاتی؟ یہ کوئی ایسا جرم تھا جس پر کسی کی عزت نفس پامال کر کے اس کا تماشا بنا دیا جاتا؟ کچھ بھرم ہی رکھ لیا ہوتا۔
میں دیہی زندگی کا مداح ہوں، یہ میرے پڑھنے والے جانتے ہیں۔ لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ دیہی زندگی کی سب سے بڑی لعنت ہم دیہاتیوں کے رویے ہیں۔ ہم سا جاہل، ہم سا گنوار، ہم سا سفاک، ہم سا ضدی، ہم سا کوڑھ مغز کوئی جنگل کے درندوں میں بھی نہ ہو۔ یہی رویے ہیں جو دیہی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں۔ یہی سفاکیت ہے جس سے تنگ آ کر لوگ بچوں کو لے کر شہروں کو ہجرت کر جاتے ہیں کہ کم از کم یہ تو انسان بن جائیں۔
تربیت کا کوئی ادارہ باقی نہیں رہا۔ زمینیں تقسیم ہو ہوکر اب دو دو ایکڑ کی ملکیتیں رہ گئی ہیں لیکن رعونت بر اعظموں جتنی ہے۔ پرانے وقتوں کی قدریں پامال ہو چکی ہیں، اب جہالت ہے اور دل پتھر کے ہو چکے ہیں۔ درد دل کی مثالیں بھی کم نہیں اور شرفاء بھی بہت ہیں لیکن جس دکھ کا میں اظہار کر رہا ہوں یہ بھی کوئی مفروضہ نہیں، بہت بڑی حقیقت ہے۔
ایک وقت تھا، گائوں میں شادی ہوتی تھی سارا گائوں ہی مدعو کر لیا جاتا تھا۔ کھانا سادہ ہوتا تھا دستر خوان سیع ہوتا تھا۔ اب ہوس ہے، حرص ہے اور مقابلہ بازی۔ اب ہم پینڈو نہیں رہے ماڈرن ہونا چاہتے ہیں۔ اب ہمیں ہوٹلوں میں کھانے کھانے ہیں۔ ہم نے دکھاوے کرنے ہیں۔ قرض کے پہاڑ تلے مر جانا ہے مگر دکھانے کو درجنوں ڈشیں تیار کروانی ہیں۔ اوقات ہماری یہ ہے کہ دو بندے کھانا کھا لیں تو ہمارا وجود کیلکولیٹر بن جاتا ہے کہ ہائے مر گئے اتنا بل ینا پڑے گا۔
ہم باغات بیچ کر شادی ہال بنا تے ہیں۔ قرض لے کر شادیاں کرتے ہیں اوور سونا بیچ کر آتش بازیاں کرتے ہیں۔ واجبی سی تعلیم ہمارا اور ہماری جہالت اور ہماری انا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ہم اپنے اپنے موضعوں کے فرعون بنے بیٹھے ہیں۔
مادیت کی اس لعنت نے اس معاشرے کو یوں چاٹ کھایا ہے کہ کسان اب بیج میں زہر ملا کر زمین میں ڈالتا ہے۔ چڑیاں کھاتی ہیں اور مر جاتی ہیں۔ پوچھیں تو جواب ملتا ہے چڑیا ں بیج کھا جاتی ہیں، زہر نہ ڈالیں تو کیا کریں؟ پٹ سن جیسی مونچھیں، کاٹن پر لگے فرعونی کلف، ناموں کے ساتھ بڑے بڑے سابقے اور لاحقے، لیکن دل اتنے چھوٹے ہو چکے ہیں کہ انہیں چند چڑیوں سے بھی ڈر لگتا ہے کہ وہ ان کے حصے کا رزق نہ کھا جائیں۔ ایک چڑیا کتنا کھا جاتی ہوگی؟ ساری چڑیاں مل کر ایک گائوں کو آخر کتنے بوری گندم سے محروم کر سکتی ہیں؟ لیکن ہم اتنے سفاک ہو گئے ہیں ہم اس معصوم چڑیا کو زہر دے کر مار دیتے ہیں۔ ایک وقت تھا چڑیوں کے ڈاروں کے ڈار گزرتے تھے، اب یہ چڑیا نا پید ہو چکی ہے۔ ہمارے اندر کی غلاظت نے اس معصوم پرندے کو معدوم ہونے کے قریب لا کھڑا کر دیا ہے۔ جو ان ننھی چڑیوں سے ڈر کر انہیں مار دیتے ہیں انہیں یہ کیسے گوارا ہو تا کہ دو زندہ انسان، ان کی شادی کی تقریب میں کھانا کھا لیں۔
ویسے شادی کی ان تقاریب میں ان معززین کو کبھی آپ نے کھانا کھاتے دیکھا ہے؟ ایسے لگتا ہے منگول کموتا ن النچک کی قیادت میں دشمن پر پل پڑے ہوں۔ جننم جنم کی بھوک ہے جو ہمارے وجود وں سے لپٹی پڑی ہے۔ ہم معدے سے دیکھتے ہیں اور معدے سے سوچتے ہیں۔ قصور تو انہی کا ہے جو شادی کی تقریب میں کھانا کھا بیٹھے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا ہم دو انچ کی چڑیا کو نہی چھوڑتے یہ تو ساٹھ ساٹھ انچ کے انسان تھے۔ ہماری روٹی کھانے آ گئے کم بخت۔ ہم چڑیا کو دو دانے نہیں کھانے دیتے ا ور زہر سے مار دیتے ہیں، یہ ہماری روٹی، ہمارے نان اور ہماری بریانی کھانے آ گئے۔