پاکستان میں جب کوئی قانونی بحران پیدا ہوتا ہے یا کسی قانونی نکتے پر کوئی تنازعہ یا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو اس پر سیاسی مباحث بھی ہوتے ہیں، ٹی وی پر ٹاک شوز بھی ہوتے ہیں اور عدالتوں میں فیصلے بھی دیے جاتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود پاکستان میں کوئی جورسپروڈنس تشکیل نہیں پا سکی۔ ایک پاکستانی کے طور پر میں سوچتا ہوں کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔
قومی زندگی میں قانونی سوالات کا جنم لینا ایک فطری سی بات ہے۔ یہ سوالات بسا اوقات اتنے سنگین بھی ہو جاتے ہیں کہ ساری سیاست ہی ان کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ ان قانونی سوالات کے ساتھ اچھا خاصا بحران بھی چلا آتا ہے اور یہ بھی غیر فطری نہیں کیونکہ جب ریاستی امور آئین اور قانون کے مطابق چلیں گے تو یہ سب تو ہوگا۔ غیر فطری البتہ یہ ہے کہ کوئی بھی قانونی سوال اور کوئی بھی قانونی بحران وطن عزیز میں ایک جورسپروڈنس تشکیل دینے سے کامیاب نہیں ہو پاتا۔ ایسا کیوں ہے۔
جورسپروڈنس کے فقدان سے کیا مراد ہے، یہ میں عرض کر دیتا ہے۔ ایک ہوتا ہے قانون، اور ایک ہوتا ہے وہ سارا فلسفہ حیات جس کی روشنی میں قانون لایا جاتا ہے یا اس کی تعبیر کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں قانون تو ہے، اس کی نت نئی تشریحات کا بھی انبار لگا ہے مگر وہ فلسفہ مرتب نہیں ہو پا رہا جس کی روشنی میں قانون اپنا ارتقائی سفر طے کرے اور معاشرے کو معلوم ہو کہ فلاں قانونی بحران جب اس کے دامن سے لپٹا تھا تو اس کا جواب تلاش کرتے کرتے یہ جورسپروڈنس تشکیل پائی تھی۔
نتیجہ کیا نکلا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ ہر دور میں، ہر بحران کو، اس دور کی ضرورت کے تحت یا فیصلہ سازوں کی ضرورت کے تحت دیکھا جاتا ہے۔ پارلیمان جب کوئی فیصلے کرتی ہے تو وہ بھی کسی فلسفہ یعنی جورسپروڈنس کو جنم نہیں دے پاتی بلکہ ہنگامی بنیادوں پر، ضرورت اور مفاد کے تحت، جو چاہا جاتا ہے اسے قانون کانام دے دیا جاتا ہے۔ ایک ایک دن میں عمران کان دور میں درجنوں آرڈیننس جاری کر دیے جائیں یا ایک ایک دن میں پی ڈی ایم کے دور میں درجنوں قانون پارلیمان سے منظور کرا لیے جائیں، نتیجہ ایک ہی ہے۔ اور وہ یہ کہ مفاد اور ضرورت اور رد عمل میں قوانین کا تو انبار لگ جاتا ہے، لیکن ان کی کوئی جورسپروڈنس تشکیل نہیں دی جا پاتی، کوئی فلسفہ قانون مرتب نہیں ہو پاتا۔
بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ معاملات جب عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہاں سے بھی صرف فیصلے آتے ہیں، جورسپروڈنس تشکیل نہیں پا سکتی۔ کیونکہ فیصلہ سازی کے عمل پر سوال اٹھ رہے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کا منصب ماضی قریب میں اتنا طاقت ور ہو چکا تھا کہ اس کی ذات ہی جورسپروڈنس تھی۔ بنچوں کی تشکیل سے سو موٹو تک، فرد واحد ہی وطن عزیز کی جورسپروڈنس تھا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قانون کی دنیا میں معاشرے کا ارتقارکا جاتا ہے۔ سب مل کر دائروں میں سفر کرتے ہیں۔ فیصلے تو آتے ہیں اور عمل درآمد بھی ہو جاتا ہے مگر جورسپروڈنس نہیں وضع ہو پاتی چنانچہ وقت بدلتا ہے تو فیصلے بھی بدل جاتے ہیں۔
کبھی پارلیمان کے اندر ڈیفیکشن کلاز کی تشریح کرتے کرتے عدالت فیصلے میں وہ چیز بھی شامل کر دیتی ہے جو آئین میں کہیں موجود نہیں ہوتی۔ کبھی پوری پارلیمان کا بنا ہوا قانون اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا جاتاہے کہ ہماری رائے مین یہ آئین سے متصادم ہے اورکبھی عدالت حاکم وقت کو یہ اختیاربھی دے دیتی ہے کہ وہ جب چاہے آئین مین ترمیم کر سکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ آئین میں ترمیم کا اختیار خود عدالت کے پاس نہیں ہوتا۔ کبھی نگران جج بن جاتے ہیں اور کبھی عمل درآمد بنچ بنا دیے جاتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے خود عدالت ہی سوال اٹھا رہی ہوتی کہ آئی میں عمل درآمد بنچ کا ذکر کہاں موجود ہے یہ بنچ کیسے بن گیا۔
کبھی عدالت وقت ضائع کرنے اور نامناسب پیٹیشن لانے پر وکیل کو جرمانے کر رہی ہوتی تو کبھی عدالت ڈیم فنڈ اکٹھے کر رہی ہوتی ہے اور بہبود آبادی پر کانفرنسیں کرا رہی ہوتی اور وقت ضائع ہونے کا کوئی احساس کہیں کسی کو تنگ نہیں کر رہا ہوتا۔ کبھی ایک گروہ کے لیے لو چلتی ہے تو قانون اسی لو کا تھپیڑا بن جاتا ہے، کبھی اس گروہ پر بہار آتی تو سارا قانون ہی ا گروہ کے لیے پھولوں کی سیج بن جاتا ہے۔ کبھی پریسیڈنٹ لا، پر فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں اور گلیور ٹریولز میں پریسیڈنٹ کا ذکر خیر یاد آ جاتا ہے تو کبھی چیف جسٹس کہتے ہیں انہیں عدالتی نظیر نہ بتائی جائے وہ اس کے پابند نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قانون اور اس کے اطلاق کا کوئی اعتبار نہیں رہا۔ سب کچھ غیر یقینی کی دھند میں لپٹا ہے۔
ڈیفیکشن کلاز کی تشریح ہوگئی، اس سے سیاسی بحران بھی پیدا ہو یا، آئین ری رائٹ کرنے کی آوازیں بھی اٹھ گئیں لیکن مسئلہ سے اصول کیا نکلا؟ جورسپروڈنس کیا بنی؟ کوئی فلسفہ مرتب ہوا یا دائروں کا سفر ہے ا ور کل کو کوئی نیا فیصلہ آ جائے گا؟ کیا کل کو پارٹی کی ہدایت کے بغیر ووٹ دیا جائے تو وہ گنا جائے گا یا نہیں؟ نہ گنا گیا تو پھر سزا کس بات کی؟ اسمبلی رکنیت سے محرومی کیوں؟ اصل سربراہ کون ہے؟ پارلیمانی پارٹی یا پارٹی کا؟ فیصلے تو آ گئے، لیکن متنازعہ فیصلے جورسپروڈنس نہیں بتا سکتے۔ یہ وقت بدلنے پر بدل دیے جاتے ہیں اور انجام؟ دائروں کا سفر۔
اسی طرح کبھی فوجی عدالتیں جائز ہو جاتی ہیں، کبھی ان کے خلاف فیصلے آ جاتے ہیں۔ جائز سے ناجائز کے درمیان جورسپروڈنس کہاں ہے؟ کچھ لوگ اس کی زد میں آئیں تو یہ جائز ہو جاتی ہیں، کچھ اور لوگ اس کی زد میں آئیں تو یہ ناجائز ہو جاتی ہیں۔ جائز اور ناجائز کے اس سفر میں مقامی جورسپروڈنس کہاں ہے؟ حالات و واقعات کا معروضی جائزہ کہاں ہے، اس سے استنباط کہاں کیا گیا ہے، لگے بندھے اصولوں کے متضاد اطلاق کے بیچ وہ فکری مشق کہاں ہے جو بتائے کہ کن حالات میں افواج کے خلاف کہاں تک احتجاج اب گوارا ہوگا اور اس کے کیا کیا خوفناک نتائج نکلیں گے اور یہ کہ کیا انہیں معمول کی کارروائی سمجھ کر گوارا کیا جائے گا؟ کیا یہ گوارا کیا جائے گا کہ سیاسی قیادت آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے میں وہی کچھ اب معمول سمجھ کر کیا کرے گی جو 9مئی کو ہوا؟
اگر سویلین کا ہر جرم عام عدالت میں جانا ہی اصول ہے تو دہشت گردی کی الگ عدالتوں کا مستقبل کیا ہے؟ کیا محض فوجی عدالت سے انصاف پامال ہو جاتا ہے؟ اور کیا محض فوجی عدالت کی بجائے عام عدالت سے انصاف کی فراہمی یقینی ہو جاتی ہے؟ اگر ماتحت عدالتوں میں جج صاحبان سے بد تمیزی پر خصوصی اہتمام کے ساتھ دہشت گردی کا قانون لاگو ہوتا ہے تو 9 مئی کے مقدمے پر کیوں نہیں ہو سکتا۔
جب ریاست میں کوئی جورسپروڈنس تشکیل نہیں پاتی تو پھر مزاج یار ہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ہمیں جورسپروڈنس کی شدید ضرورت ہے۔