سانحہ مشرقی پاکستان کے سلسلے میں ہماری عمومی دانش کا مبلغ علم حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے چند اقتباسات تک محدود ہے چنانچہ ان کے سامنے جب تصویر کا کوئی نیا رخ رکھا جاتا ہے تو وہ بد مزہ ہو جاتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ اس باب میں حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ہی کو حرف آخر سمجھا جائے اور اس پر مزید غورو فکر اور سوچ بچار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ایک ادھوری، ناقص اور نا معتبر دستاویز ہے جس کی بنیاد پر سقوط مشرقی پاکستان کی وجوہات کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
چند دلائل، جو کالم میں بیان کیے جا سکتے ہیں، اختصار کے ساتھ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
پہلا اور اہم نکتہ یہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کا مینڈیٹ کیا تھا؟ کیا ہمیں علم ہے کہ یہ کمیشن بنیادی طور پر سقوط مشرقی پاکستان کی وجوہات جاننے کے لیے بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ یہ تو ایک وار کمیشن تھا جس کا کام مشرقی پاکستان میں سرنڈر کے اسباب پر غور کرنا تھا۔ مشرقی پاکستان کے حادثے کی بہت سی وجوہات تھیں۔ ان سب سے صرف نظر کر لیا گیا اور سارا ملبہ گویا مشرقی پاکستان میں موجود ایسٹرن کمانڈ پر ڈال دیا گیا۔ اس کمیشن کے قیام میں اور اس مینڈیٹ کے ساتھ قیام میں اگر بد نیتی نہیں بھی شامل تھی تو نقص فہم اور خلط مبحث ضرور تھا۔
یہ "وار کمیشن" بھی کب بن رہا ہے، ذرا اس پر بھی غور کیجیے۔ 16 دسمبر کو سانحہ ہوا اور دس دن بعد 26 دسمبر کو یہ کمیشن قائم کر دیا گیا۔ یہ اگر "وار کمیشن" تھا اور اس کا کام مشرقی پاکستان میں شکست کے اسباب پر غور کرنا تھا تو اتنا انتظار تو کر لیا گیا ہوتا کہ ہمارے قیدی فوجی بھارت سے رہا ہو کر واپس آجاتے اور اپنا موقف بیان کر لیتے۔
کمیشن نے کیا کمال کیا۔ یہ بھی جان لیجیے۔ ہمارے فوجی ابھی بھارت کی قید میں ہی تھے کہ کمیشن نے رپورٹ بھی مرتب فرما ڈالی۔ یعنی محاذ پر موجود اپنے سپاہیوں، جوانوں اورافسران کا موقف لیے بغیر، انہیں سنے بغیر کمیشن نے نتائج اخذ کر لیے کہ لیجیے عزیز ہم وطنو، سرنڈر کے اسباب یہ ہیں۔ یہ اگر جوڈیشل کمیشن تھا تو اسے اتنا احساس تو ہونا چاہیے تھا کہ کسی کو سنے بغیر ہی اس پر فیصلہ صادر فرما دینا، چاند ماری تو ہو سکتا ہے انصاف نہیں۔ ہمارے قیدی بھارت سے 1974میں رہا ہو کر واپس وطن آئے تو انہیں معلوم ہوا کمیشن بھائی جان دو سال قبل جولائی 1972میں بھٹو صاحب کو اپنی رپورٹ پیش فرما چکے ہیں۔
برائے وزن بیت یہ ضرور کیا گیا کہ جب 1974 میں قیدی واپس آئے تو ان کا موقف لے کر ایک ضمنی رپورٹ بھی ساتھ نتھی کر دی گئی لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ نتائج فکر تو پہلے ہی مرتب فرمائے جا چکے تھے، اب مجبوری کے عالم میں حاشیے کی تھوڑی سی کشیدہ کاری فرما کر تاثر دیا گیا کہ لیجیے صاحب انصاف کا تقاضا پورا ہو گیا۔ آپ پھرتیاں دیکھیے، سانحہ کے دسویں روز کمیشن بنتا ہے اور قیدیوں کو سنے بغیر اور ان کی واپسی کا انتظار کیے بغیر" کمیشن حضرت لرے" اس معاملے کو چھ ماہ میں نبٹا دیتے ہیں۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ یہ رپورٹ کوئی عدالتی فیصلہ نہیں ہے جو فریقین کو سن کر کیا گیاہو اور جہاں واقعات کو شواہد اور دلیل کی بنیاد پر، پرکھا گیا ہو۔ یہ محض روایات ہیں۔ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔ ایک بڑا سانحہ ہو چکا تھا۔ اس کے بعد اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ راوی حضرات کی طرف سے صدمے کی حالت میں کتھارسس بھی کیا گیا ہو اور مبالغہ بھی۔ انسانی فطرت سے کچھ بعید نہیں کہ نا پسندیدہ کرداروں کے بارے میں اگلے پچھلے حساب بھی پورے کیے گئے ہوں کہ رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ آج بھی دائیں بائیں دیکھ لیجیے کسی معمولی سے حادثے پر کیسے کیسے کتھارسس ہوتا ہے اور کیسے کیسے حساب برابر کیے جاتے ہیں۔ رویات کے ابلاغ اور فیصلے میں جو فرق ہوتا ہے اتنی گنجائش تو بہر حال بنتی ہی ہے۔
چونکہ کمیشن کا کام سانحے کے مجموعی اسباب کی بجائے فوجی شکست کی وجوہات تلاش کرنا تھا، اس لیے غم و غصے کا شکار وہی بنے جو مغربی پاکستان میں رہ گئے۔ کوئی غلطی تو مشرقی پاکستان والوں سے بھی ہوئی ہو گی۔ اس سے صرف نظر کیا گیا۔ کہیں ذکر آیا بھی تو محض شعر کا وزن پورا کرنے کے لیے۔ سیاست میں فوج کے عمل دخل پر تنقید ہوئی مگر اس کا ذکر کہیں نہ ہو سکا کہ فوجی جرنیل ایوب خان کو کابینہ میں شامل کر کے سیاست کا راستہ دکھانے والے وزیر اعظم کا تعلق بنگال ہی سے تھا۔
ایک اور اہم سوال بھی قابل غور ہے کہ ایک کمیشن جو بنیادی ہیئت میں ایک وار کمیشن ہے اور جس کے ذمے جنگ میں شکست اور سرنڈر کے اسباب تلاش کرنا ہے، کیا ایک جج صاحب کی سربراہی میں قائم کیا جانا چاہیے تھا؟ جسٹس انوار الحق وائس چیئر مین تھے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طفیل رحمن اور بلوچستان ہائی کورٹ سے دو جج صاحبان اس کے ممبران تھے۔ ساتھ ایک ملٹری ایڈوائزر تھا۔ ان فاضل ممبران میں سے کتنے تھے جو جنگ کے پہلوئوں سے آگہی رکھتے ہوں؟
چنانچہ جو سوال بنتے تھے وہ کسی نے پوچھے ہی نہیں۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جب آپ کی طے شدہ پالیسی تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے ہو گا تو مغربی پاکستان سے اس دفاع کے لیے کیا کیا گیا؟ کسی نے یہ پوچھا کہ جب مشرقی پاکستان میں ہماری فوج محصور ہو چکی تھی تو اس کو بچانے کے لیے مغربی پاکستان سے بھارت کے خلاف بھر پور جنگ کیوں نہ ہو سکی؟ کسی نے سوال نہ کیا کہ مشرقی پاکستان میں تو پچیس تیس ہزار محصور فوجی تھی، مغربی پاکستان میں تو لاکھوں فوجی موجود تھے تو سوال صرف ایسٹرن کمانڈ سے کیوں کیا جائے؟ اس پر تو سب نے غزل کہی کہ محصور فوج نے ہتھیار کیوں پھینکے اس پر مگر کوئی شعر نہ کہا جا سکا کہ اس محصور فوج کی مدد کے لیے یہاں سے کیا اقدام اٹھائے گئے؟
اس ناقص، ادھوری، عجلت میں تیار کی گئی نا معتبر رپورٹ کے چند اقتباسات کو، تازیانہ بنا کر آج کر ان شہداء اور جانبازوں کی پشت پر برسایا جا رہا ہے جو اس عالم میں لڑتے رہے جب نہ اسلحہ تھا نہ سپلائی۔ وہ محصور تھے اوریہاں سے ان کی کوئی مدد نہ ہو سکی۔ آج تک انہین صرف طعنے ہی مل رہے ہیں۔ دنیا کی جنگی تاریخ میں کہیں ایسی مثال دکھا دیجیے کہ فوج کا ایک حصہ محصور ہو گیا ہو، مقامی بغاوت عروج پر ہو، اسلحہ اور سپلائی نہ ہو، کوئی اس کی مدد کو نہ جا سکے اور پھر طعنے بھی اسی کو دیے جائیں۔ غلطیاں بالکل ہوئی ہوں گی اور مجرمانہ غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن شکست کے اسباب وہ نہ تھے جو اس رپورٹ میں بیان کیے گئے۔ یہ کمیشن غالبا اسی جذبے کے تحت بنایا گیا جس جذبے کے تحت آج تک کمیشن بنائے جاتے رہے۔