کیا ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کے سونامی سے معیشت بہتر کی جا سکتی ہے؟ کیا افراط زر کے آزار سے معیشت کو قدموں پر کھڑا کیا جا سکے گا اور کیا ڈاکومنٹیشن آف اکانومی کے نام پر پھیلائے گئے خوف کے اس ماحول میں کوئی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کو تیار ہو گا؟
قوالوں اور ہمنوائوں کے وجد کے سوز و وارفتگی کا انکار نہیں، وہ واقعی سماں باندھے ہوئے ہیں، اشیاء خوردو نوش سستی ہو چکیں، بستی میں دودھ اور شہد کی نہروں میں طغیانی ہے، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں، اسباب کے چشموں کا یہ پانی اتنا میٹھا ہے کہ شیر اور بکری دونوں کا پانی پیتے ہی" نچنے نوں دل کردا "ہے۔ خیر و برکت کا یہ عالم ہے دربار سے بلاوا نہ ہو تب بھی گداگران سخن کے ہجوم قلم سے ازار بند ڈالنے سوئے دربار نکل پڑتے ہیں۔ معیشت کا پہیہ رواں ہے، آٹھ مزدور دو سو روپے میں پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں۔ معیشت کی سمت درست ہو چکی ہے، ملکی تاریخ میں، معاف کیجیے، معلوم انسانی تاریخ میں یہ کمال پہلی بار ہوا ہے، مرحبا صاحب مرحبا۔۔۔۔۔۔۔ مگر قوالی تھم جائے اور قوال تھک جائیں تو معلوم ہوتا ہے حقائق کچھ اور ہیں۔
سرمائے کی اپنی ایک نفسیات ہے، جہاں خوف ہو وہاں سرمایہ نہیں رہتا۔ یہاں عالم شوق یہ ہے، یوم کشمیر کی تقریب میں آزاد کشمیر کے دارلحکومت میں کھڑے ہو کر مہمان گرامی قدر ارشاد فرماتے ہیں : چھوڑنا میں نے کسی کو نہیں۔ ان اقوال زریں نے کاروباری طبقے میں ہیجان پیدا کر رکھا ہے۔ افتاد طبع کی نزاکتیں اس کے سوا ہیں، کسی کو معلوم نہیں کس پہر کیا پالیسی آ جائے، کس لمحے منی بجٹ آ جائے، کس شام کیا طے کرد یا جائے۔ غیر یقینی کے اس عالم میں جب شہر بھر میں داروغے کوڑا ہاتھ میں لیے لوگوں کی پشت سرخ اور سبز کرنے کو گشت فرما رہے ہوں، سرمائے کو مارکیٹ میں کون لائے گا؟ احتساب کے اس عمل میں قومی خزانے میں کتنی رقم جمع ہوئی یہ بتاتے لاج آتی ہے تو یہ بتا دیجیے کہ اس عمل کے خوف سے کاروباری سرگرمی پر کیا اثر پرا، کتنے کاروبار بند ہوئے اورکتنا سرمایہ ملک سے باہر چلا گیا۔
ان ڈائرکٹ ٹیکس کے سونامی سے معیشت کھڑی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے معاشی سرگرمی ضروری ہوتی ہے۔ معیشت کا پہیہ رواں رہے گا تو پیسہ گردش میں آئے گا۔ پیسہ گردش کرے گا تو معیشت پھلے پھولے گی۔ لیکن اگر معاشی سرگرمی ہی نہ رہے تو غربت، بھوک اور افراط زر کی ماری غریب قوم کے لیے آپ دن میں چار بار بھی بجلی مہنگی کر لیں اور اس کی رگوں سے سارا خون نکال لیں تب بھی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ لوگ آخر کتنا ٹیکس دیں گے؟ بجلی اور گیس آپ کتنی مہنگی کر لیں گے؟ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ ڈاکومنٹیشن آف اکانومی بلاشبہ اچھی چیز ہے لیکن ہر کام ارتقاء کے اصول کے تحت ہوتا ہے۔ ایک ہی جست میں ساری منازل طے کرنے کے شوق کا انجام وہی ہوتا ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ اب خوف کا عالم ہے اور کاروباری سرگرمی ماند پڑ چکی۔ اب حساب خود کر لیجیے ٹیکس کتنا اکٹھا ہوا اور کاروبار کے امکانات کتنے اجڑ گئے۔ یہ تناسب آپ کو سمجھا دے گا کہ معیشت کی دنیا کسی انقلاب کی متحمل نہیں ہو سکتی، یہاں بھی ارتقاء کا فلسفہ ہی کارگر رہتا ہے۔
ایف بی آر ساڑھے چار ٹریلین اکٹھے کر چکا۔ پھر بھی بتایا جاتا ہے کہ ہدف سے ایک ٹریلین کم اکٹھا ہوا ہے۔ اگلے سال گویا یہ کمی بھی پوری ہو گی اور آئی ایم ایف ہدف بڑھانے پر بھی تلا ہوا ہے۔ ملک میں معیشت کا پہیہ رواں نہ ہوا تو یہ رقم کہاں سے اکٹھی ہو گی؟ کیا اب تازہ ہوا میں سانس لینے پر بھی ٹیکس لگے گا؟ افراط زر کی شرح ساڑھے چودہ فیصد تک پہنچ چکی۔ یہ گذشتہ بارہ سال کی بد ترین شرح ہے۔ چالیس فیصد لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے۔ ان کی بے بسی دیکھیے یہ اپنی آمدن کا پچاس سے ساٹھ فیصد صرف اپنی خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سال مزید بارہ لاکھ لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بے روزگاروں سے آپ کتنا ٹیکس لے لیں گے؟ مسائل کا انبار لگا ہے اور پالیسی ساز گدگدائے چلے جا رہے ہیں۔ معاشی ویژن یا منصوبہ بندی نام کی کسی چیز کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ان کی معاشی استعداد کا خلاصہ بہت ہی سادہ ہے۔ قرض لے لیتے ہیں، بھینسیں بیچ دے دیتے ہیں، بیرونی دورے دوستوں کے خرچ پر کر لیے جاتے ہیں، پناہ گاہیں تعمیر ہو جاتی ہیں، بھوکوں کے لیے لنگر خانے کھل جاتے ہیں، انصاف ہیلتھ کارڈ جاری فرما دیے جاتے ہیں، احساس پروگرام شروع ہو جاتا ہے اور مہنگائی سے خلق خدا کی چیخیں نکل جائیں تو اقوال زریں جاری فرمایا جاتا ہے مہنگائی کم کر کے چھوڑیں گے چاہے جو مرضی ہو جائے۔ یہ سارے اقدامات اپنی جگہ پر اچھے سہی لیکن یہ ایک یتیم خانہ چلانے کے کام تو آ سکتے ہیں، ان سے ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ ملک چلانے کے لیے ان اقدامات کے ساتھ ساتھ معیشت کی بحالی کا ایک پورا ویژن درکار ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے وہ ویژن کہاں ہے؟ کیا مبلغ اس مذکورہ ویژن سے معیشت کھڑی ہو سکتی ہے؟
معاشی بحران سنگین تر ہو چکا۔ اس سے نبٹنا کسی ایک حکومت کے بس کی بات نہیں اور اس حکومت کے باب میں تو یہ بالکل ناممکنات میں سے ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی قیادت سیاسی تعصبات سے بالاتر ہو کر مل بیٹھے اور ایک میثاق معیشت وضع کیا جائے۔ پندرہ بیس سال کی پالیسی کے کم از کم بنیادی اہداف بیٹھ کر طے کر لیے جائیں تا کہ یہ تماشا ختم ہو کہ ہر حکومت ایک نئی معاشی پالیسی لے کر آ جاتی ہے اور وہ پالیسی ایک سال بھی نہیں چل پاتی، پھر منی بجٹ آ جاتا ہے۔ جہاں پالیسیوں میں کوئی استحکام اور تسلسل نہ ہو اور کسی کو کچھ خبر نہ ہو کل دو پہر تک حکومت کیا نیا اعلان فرمانے جا رہی ہے، اس غیر یقینی کے عالم میں کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سرمایہ دار یہاں سرمایہ کاری کرے گا اور معیشت پھلے پھولے گی تو اسے پہلی فرصت میں کسی اچھے نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔