آڈیو ٹیپس کا معاملہ زیر بحث ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک عامی آدمی وزیر اعظم عمران خان کی بات کو تسلیم کرے یا سابق وزیر اعظم عمران خان کی بات کو درست سمجھے؟
عمران خان نے سوال اٹھایا ہے کہ کسی ادارے کے پاس ان کی آڈیو ریکارڈ کرنے کا کیا اختیار ہے؟ دل چسپ بات یہ ہے کہ جب وہ وزیر اعظم پاکستان تھے وہ خود ہی اس سوال کا جواب دے چکے۔ تب ان کی وارفتگی قابل دید تھی، اب ان کا اضطراب قابل نظارہ ہے۔ معلوم نہیں وہ تب سچ بول رہے تھے یا اب؟ اپنے ان تضادات کی تشریح وہی فرما سکتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ آڈیو ریکارڈنگ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ سابق وزیر اعظم اس بات پر خفا ہیں کہ ان کی آڈیو ریکارڈ کی گئیں۔ سابق وزیر اعظم اپنی آڈیو کی ریکارڈنگ پر عدلیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس معاملے کو دیکھا جائے اور اس پر قانونی کارروائی کی جائے۔
وزیر اعظم عمران خان کا موقف البتہ اس سے بالکل الگ تھا۔ بطور وزیر اعظم پاکستان ایک انٹرویو میں انہوں نے فرمایا تھا: " جو بھی مجھے کانٹیکٹ کرتا ہے، سب کچھ آئی ایس آئی کو پتا ہوتا ہے۔ آئی بی (انٹیلی جینس بیورو) کو بھی پتا ہوتا ہے، آئی ایس آئی کو بھی پتا ہوتاہے۔ ہماری فوج کو سب پتا ہوتا ہے، کیونکہ یہ جو آئی ایس آئی ہے، یہ دینا کی سب سے آئوٹ سٹینڈنگ ایجنسی ہے۔ انہیں سب پتا ہوتا ہے"۔
اس پر ان سے میزبان نے سوال کیا: " ویسے کیا انہیں یہ سب پتا ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا: " دیکھو یاد رکھو جو بائیڈن بھی جو کرے گا، سی آئی اے کو پتا ہوگا۔ انٹیلی جینس کا یہ بھی کام ہوتا ہے وہ اپنے ملک کے سربراہ کو پروٹیکٹ کرے۔ چنانچہ وہ پروٹیکٹ کرنے کے لیے ہر انفارمیشن رکھتے ہیں"۔
میزبان مزید وضاحت کے لیے پوچھتا ہے: " وہ ٹھیک ہے لیکن ہم تو اپنی بات کر رہے ہیں۔ "
وزیر اعظم عمران خان فرماتے ہیں : " دیکھیں پہلے یہ کلیئر ہو جائے۔ اگر آپ وزیر اعظم ہیں تو انہیں پتا ہوگا آپ کیا کر رہے ہیں۔ انہیں یہ پتا ہوگاآپ پیسہ چوری کر کے باہر لے جا رہے ہیں۔ یہ سب (سیاسی حکمران) کمپرومائزڈ لوگ ہوتے ہیں، یہ اپنی اسٹیبلشمنٹ سے اسی لیے ڈرتے ہیں اور یہ امریکہ سے بھی ڈرتے ہیں۔ " یعنی وزیر اعظم عمران خان کے اس موقف کے اہم پہلو یہ ہیں۔
1۔ بطور وزیر اعظم پاکستان انہیں علم تھا ان کی ہر چیز کی مانیٹرنگ ہو رہی ہے اور ان کی گفتگو تک سنی جا رہی ہے۔
2۔ بطور وزیر اعظم پاکستان انہوں نے اس سلسلے کو ختم کرنے کا کوئی حکم جاری نہیں فرمایا۔
3۔ بطور وزیر اعظم پاکستان وہ اعتراف کر رہے تھے کہ یہ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور وہ گویا اس عمل کی نہ صرف اجازت دے رہے تھے اور اسے قبول کر رہے تھے بلکہ وہ اس کی تعریف اور تحسین بھی کر رہے تھے اور بین الاقوامی برادری سے مثالیں دے دے کر ثابت کر رہے تھے کہ یہ کوئی غلط کام نہیں ہے کہ اس پر تنقید کی جائے بلکہ یہ تو ایک ایسا اچھا کام ہے جو امریکہ جیسی سپر پاور کے صدر کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
4۔ بطور وزیر اعظم وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے۔ گویا وہ اس کام کی وکالت فرما رہے تھے اور میڈیا کے ذریعے قوم کو بھی سمجھا رہے تھے کہ یہ کوئی غلط کام نہیں بلکہ یہ تو ایک ضروری اور قابل تحسین کام ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔
5۔ وزیر اعظم عمران خان بتا رہے تھے کہ وزیر اعظم کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھنا ان کی سکیورٹی کے لیے بھی ضروری ہے اور اس لیے بھی ضروری ہے کہ وزیر اعظم لوٹ مار میں مصروف ہو جائے تو اس پر نظر رکھی جائے۔
6۔ بطور وزیر اعظم انہوں نے قوم کو یہ بھی بتایا کہ اس مانیٹرنگ اور جاسوسی سے بد مزہ صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو کمپرومائزڈ ہوں اور جو لوٹ مارا ور چوری میں ملوث ہوں اور انہیں ڈر ہو کہ ان کا نامہ اعمال سامنے نہ آ جائے۔ ایماندار آدمی کو ایسا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔
پھر وقت نے کروٹ بدلی اور عمران خان وزیر اعظم نہ رہے۔ سابق وزیر اعظم ہو گئے۔ اب بطور سابق وزیر اعظم وہ ہتھیلی پر یہی سوال لیے پھرتے ہیں کہ ان کی آڈیو کو ریکارڈ کرنے کا اختیارکس کو حاصل ہے۔ اب ان کا خیال ہے کہ یہ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اب وہ عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سوال وہی ہے کہ ہم خاک نشیں کس عمران خان کی بات کا اعتبار کریں؟ اس عمران خان کی بات کا جو وزیر اعظم تھا یا اس عمران خان کی بات کاجو وزیر اعظم نہیں ہے۔ جواصول، جو قانون اور جو اخلاقیات عمران خان صاحب کو آج یاد آ رہی ہیں، یہ اس وقت کیوں یاد نہ آ سکیں جب مسند اقتدار پر فائز تھے۔
آج تو انہیں احتجاج کرنا پڑ رہا ہے، اس وقت تو وہ دو سطری حکم جاری کر سکتے تھے۔ ایک قاعدہ بنا سکتے تھے کہ آج کے بعد ایسا نہیں ہوگا۔ اس حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایس او پیز بنا سکتے تھے اور اس سارے عمل کی نگرانی کر سکتے تھے۔ اور کچھ بھی نہ ہوتا تو آج اپنے ضمیر کی عدالت میں تو سرخرو ہوتے کہ میرا موقف کل بھی یہی تھا اور آج بھی۔
ہماری سیاسی قیادت کا المیہ ہی یہی ہے کہ اسے اقوال زریں صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب اس کے اقتدار کے موسم اس سے روٹھ جائیں۔ جب یہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں اس وقت ان سے بڑا رستم، ان سے بڑا افلاطون، ان سے بڑا جمہوریت پسند اور ان سے بڑا آئین دوست کوئی نہیں ہوتا اور جب یہ اقتدار میں آ تے ہیں یہ اپنے اقوال زریں گناہ کی طرح بھلا دیتے ہیں اور یہ اپنے طرز عمل سے بتاتے ہیں کہ ان کا کوئی اصول نہیں جس کی روشنی میں یہ اپنے زندگی گزارتے ہوں۔
یہ ہر معاملے کو صرف اپنے مفاد کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور جس وقت جو اصول ان کے مفادات سے ہم آہنگ ہو جائے یہ اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ اقتدار میں ہوں تو ان کے اصول اور ہوتے ہیں یہ اقتدار سے محروم ہو جائیں تو ان کے اصول بدل جاتے ہیں۔ وہی جان ایلیا والی بات کہ:
محبت بری ہے، بری ہے محبت
کہے جا رہے ہیں، کیے جا رہے ہیں
محبت اگر اچھی ہے تو ہر موسم میں اسے اچھا کہنا چاہیے، یہ اگر بری ہے تو ہر موسم میں اسے برا کہنا چاہیے۔ جب معاملات زندگی سے اس قدر خوف ناک تضادات لپٹ جائیں تو قیادت کے اعتبار کا موسم گزر جاتا ہے، اس کے خواب بھلے کتنے ہی خوش آئند کیوں نہ ہوں۔