پاکستانی معیشت کا ایک سنگین ترین پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں وزارت خزانہ ہو یا اس وزارت کے سیکرٹری کا منصب، یہاں متعلقہ فرد کے ذوق اور اہلیت کی بجائے محض تعیناتی، کر دی جاتی ہے۔ اس بے نیازی کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ غلام محمد تھے۔ ان کی سیاسی حرکتوں سے قطع نظر، اتنا جرور تھے کہ انڈین سول سروس میں انہوں نے ریلوے اکائونٹس کے شعبے سے کیرئر کا آغاز کیا اور معیشت کو کسی حد تک سمجھتے تھے۔ لیکن ہمارے دوسرے وزیر خزانہ چودھری محمد علی تو ایم ایس سی کیمسٹری تھے۔ بجا کہ سول سروس میں جانے کے بعدوہ ہندوستان کے وزیر خزانہ جیمز گریگ کے پرسنل سیکرٹری بن گئے لیکن ایم ایس سی کیمسٹری کا معیشت سے کیا تعلق؟
ہمیں یہ کس نے بتایا ہے کہ بیوروکریٹ ٹارزن ہوتا ہے، دو سال اسے وزارت مذہبی امور میں بٹھا دو، پھر وزارت خزانہ کا چارج دے دو، اس کے بعد صحت کا شعبہ اس کے حوالے کر ددو، وہ ٹارزن ہر شعبے کو درست کر دے گا؟ سی ایس ایس کے بعد افتاد طبع، تعلیمی قابلیت کے مطابق شعبے دیے جانے چاہیں لیکن یہاں کوئی ترتیب اور اصول نہیں۔ چنانچہ بیوروکریٹ جس وزارت میں جاتا ہے، اس کے پاس کوئی ویژن یا منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔ یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے اور ہم نے سول سروس کے ڈھانچے میں کوئی اصلاح نہیں کی۔
ہمارے تیسرے وزیر خزانہ سید امجد علی بھی برطانوی راج کے سول سرونٹ تھے۔ 1955 میں وہ امریکہ میں پاکستانی سفیر تھے اور امور خارجہ کی گتھیاں سلجھاتے تھے اور 1956میں وہ پاکستان کے وزیر خزانہ بن کر معاشی امور کی سمت درست فرمانے لگ گئے۔ یعنی وہی تصور کہ بیوروکریٹ ایک ایساٹارزن ہوتا ہے جو بیک وقت دنیا کے تمام معاملات پر عبور رکھتاہے۔ چاہے تو سفارت کاری کروا لو، چاہے تو معیشت ٹھیک کروا لو۔
پاکستان کے پانچویں وزیر خزانہ عبد القادر سنجرانی تھے۔ ایک زمانہ تھا وہ کینیا میں پاکستان کے سفیر تھے، پھر ایک وقت آیا وہ وزیر صحت بنا دیے گئے کہ سفارت کاری بہت ہو گئی اب ذرا صحت کے معاملات ٹھیک کر دیجیے۔ اس کے پاس صاحب کو پاکستان کا وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔
ایڈمرل سید محمد احسن بھی پاکستان کے وزیر خزانہ رہے۔ پاکستانی بحریہ کے سربراہ رہے۔ مشرقی پاکستان میں گورنر بھی رہے۔ دفاع کے معاملا ت پر ان کی بڑی گرفت تھی لیکن یحیی خان کے دور میں وزیر خزانہ بنا دیے گئے۔
بھٹو صاحب کا دور آیا تو ڈاکٹر مبشر حسن کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ موصوف سول انجینئر تھے اور محکمہ آبپاشی میں ملازم تھے۔ بعد میں سکالر شپ پر ایم ایس سی کرنے امریکہ گئے تو اسی سول انجیئرنگ میں۔ پی ایچ ڈی بھی سول انجینئرنگ میں کی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو اسی سول انجینئرنگ میں۔ لیکن وزارت انہیں خزانہ کی مل گئی چنانچہ نجکاری کے نام پرپاکستانی معیشت کی وہ سول انجینئرنگ، کی کہ وہ آج تک سیدھی نہیں ہو سکی۔ مبشر حسن کے بعد بھٹو صاحب نے رانا محمد حنیف خان کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ موصوف کی "معاشی قابلیت" یہ تھی کہ وہ وکیل تھے اور لنکنز ان سے بار ایٹ لاء تھے۔
بھٹو صاحب نے ہی رانا حنیف کے بعد ایک نیا وزیر خزانہ متعارف کرایا۔ یہ حفیظ پیرزادہ صاحب تھے۔ ان کی معاشی امور میں مہارت غیر معمولی تھی۔ وہ بھی وکیل تھے اور لنکنز ان سے بار ایٹ لاء کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ وہ معیشت کو اتنی اچھی طرح سے سمجھتے تھے کہ بھٹو کو جس مقدمے میں سزائے موت ہوئی اس میں بھٹو کے وکیل بھی یہی تھے۔ موصوف بھٹو دور میں وزیر قانون بھی رہے، وزیر خزانہ بھی رہے، وزیر تعلیم بھی رہے اور وزیر اطلاعات بھی۔
اگلے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان۔ برطانوی دور کے سول سرونٹ تھے۔ تعلیمی قابلیت کیمسٹری اور باٹنی میں بی ایس سی تھی۔ ڈیفنس سیکرٹری بھی رہے اور حتی کہ صدر پاکستان بھی۔ منتخب اسمبلیوں کی جتنی معیشت انہوں نے " سیدھی" کی، شاید ہی کسی نے کی ہو۔
ایک وزیر خزانہ یسین وٹو صاحب تھے۔ ان کی معاشی قابلیت ایل ایل بی، تھی۔ پنجاب بار کونسل کے چیئر مین بھی رہے۔ بھٹو صاحب نے انہیں صرف وزیر خزانہ ہی نہیں بنایا، وزیر تعلیم بھی بنائے رکھا۔ بھٹو صاحب کے کافی بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو انہوں نے احسان الحق پراچہ کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ احسان الحق پراچہ کی معاشی مہارت بھی ایل ایل بی تھی۔
بیچ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کی معاشی سمجھ بوجھ تو مسلمہ تھی لیکن وہ مقامی معیشت کے مسائل اور امکانات سے لاعلم تھے۔ ان کا تعلق بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے تھا اور وہ اعداد وشمار کی بے رحم پیچیدگیوں ہی کو معیشت کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ تا ہم ہمارا عمومی رویہ یہی رہا کہ یہاں وزارتیں صرف اپنے گروہ کے لوگوں، اہل دربار اور حلیفوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے دی جاتی ہیں، اس عمل میں میرٹ، ذوق اور رجحان وغیرہ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔۔ لیکن عمومی منظر نامہ پریشان کن ہے۔
ہمارے ہاں جرنیل اور جج (اور اب صحافی بھی) کرکٹ بورڈ چلا رہے ہوتے ہیں، کالم نگاروں کو سفیر بنا دیا جاتا ہے، سیاحت کی وزارت حضرت مولانا عطا اء الرحمن صاحب کو دے دی جاتی ہے۔ یہ ایک طویل قصہ ہے جو دل جلاتا رہتا ہے۔ کسی شعبے میں کوئی پلاننگ اور ویژن نہیں۔ سیکرٹری سے وزیر تک بس کچھ لوگ آتے ہیں اپنا وقت گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں طویل المدتی منصوبہ بندی کون کرے، کیسے کرے اور کیوں کرے؟
چنانچہ اس روش کا جو منطقی نتیجہ ہو سکتا تھا نوشتہ دیوار کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ کسی بھی شعبے کو اٹھا کر دیکھ لیجیے یہی حال ہو گا۔ وفاقی کابینہ کا تعین ہو رہا ہو تو اہلیت تو کہیں زیر بحث ہی نہیں آتی۔ بنیادی مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ ریوڑیاں کیسے بانٹی جائیں کہ حلیف بھی خوش ہو جائیں اور اپنی جماعت بھی۔ چنانچہ ایسا اودھم مچتا ہے جیسے غنیم مال غنیمت بانٹ رہا ہو۔ وزارتیں بانٹ کر ملک کے نظام میں بہتری کسی کا مقصد نہیں ہوتا، مقصد یہ ہوتا ہے کہ کابینہ میں کتنے لوگوں کواکاموڈیٹ کیا جا سکتا ہے۔ ترجیح ریاست نہیں ہوتی ترجیح اپنی حکومت کی بقاء ہوتی ہے۔ باقی سب زیب داستان ہے جو برائے وزن بیت دہرائی جاتی رہتی ہے۔
آپ کسی معمولی وزارت کا نہیں، اہم ترین وزارتوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس کے سیکرٹری صاحبان کا بھی یہی عالم ہوگا کہ کبھی وہ زراعت کے شعبے میں ہوں گے تو اچانک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ٹرانسفر کر دیے جائیں گے۔ وہاں سے اٹھا کر تعلیم کے شعبے میں بھجوائے جا سکتے ہیں اور صحت کا قلمدان بھی دیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ایڈہاک ازم کا ایک جنگل ہے اور ہم وہاں بیٹھے پکنک منا رہے ہیں۔
مبلغ ویژن اتنا سا ہے کہ قرض لو اور کھا جائو۔ کھاتے کھاتے اور مراعات سمیٹتے سمیٹتے خزانہ خالی ہونے لگے اور آئی یم ایف اگلی قسط نہ دے تو کوئی بات نہی۔ عوام کی رگوں ان کے حصے کی خوشیاں چھین کر، گزارا " کیا جا سکتا ہے ا ور اشرافیہ شام کو پارلیمانی لاجز کے خوشگوار ماحول میں بیٹھ کر قہقے لا رہی ہوتی ہے کہ کیسے مشکل فیصلے ہم کرتے جا رہے ہیں۔ تالیاں؟