بھارت کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے اور اس کی لوک سبھا کے اراکین کی تعداد 543 ہے جب کہ پاکستان کی آبادی 23 کروڑ ہے اور اس کی قومی اسمبلی کی نشستیں 342 ہیں۔ پاکستان کا فارمولا بھارت میں لاگو ہوتا تو بھارت کی لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد 2 ہزار سے زیادہ ہونی چاہیے تھی اور بھارت کا فارمولا پاکستان میں لاگو ہوتا تو پاکستان کی قومی سمبلی کی تعداد صرف 135 ہونی چاہیے تھی۔
کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ معاشی طور پر خاصے مستحکم بھارت کی لوک سبھا کے اراکین کی تعداد صرف 543 ہے تو معاشی ابتری کے شکار پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 342 کیوں ہے؟ یہ غریب قوم اتنے زیادہ کردار کے غازی، بے دغ ماضی، نہ بکنے والے نہ جھکنے والے اراکین قومی اسمبلی کے خرچے اور ناز نخرے آخر کس اصول کے تحت اٹھاتی پھرے؟
پاکستان کی بیوروکریسی کا ڈھانچہ نو آبادیاتی ہے۔ یہ افسر شاہی برطانیہ نے 1857 کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعد اس مقصد کے لیے تیار کی تھی کہ اس افسر شاہی کے ذریعے مقامی آبادی کو یوں دبا کر رکھا جائے کہ وہ کسی بغاوت یا گستاخی کا تصور تک نہ کر سکیں۔ یہ افسران یہاں غیر انسانی رویوں کے ساتھ لا محدود اختیارات کے تحت بروئے کار آئے۔
بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 کے تحت قائم کردہ اس افسر شاہی کا اصل مقصد عوام کا استحصال کرنا اور برطانوی قبضے کو مستحکم رکھنا تھا۔ یہ افسر شاہی عوام سے کٹی ہوئی تھی۔ اس کی رہائش عوام سے دور تھی اور اس کے اپنے الگ کلب تھے جس کے اخراجات یہیں کے وسائل لوٹ کر پورے کیے جاتے تھے۔
شروع میں ان افسران کی تعداد ایک ہزار تھی اور یہ سب کے سب برطانوی تھے۔ بعد میں ان میں کچھ مقامی جنٹل مین، بھی شامل کر لیے گئے۔ ان مقامی جنٹل مینوں کا مزاج بھی انگریزوں والا تھا۔ یہ بھی مقامی رعایا کو انسان نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا رویہ بھی رعونت زدہ تھا۔ یہ بھی آقا کی نفسیات کے حامل تھے۔
قیام پاکستان کے بعد یہی افسر شاہی پاکستان کے حصے میں آ گئی۔ اس افسر شاہی کا مزاج نہ بدلاجا سکا۔ قائد اعظم نے افسر شاہی کو یاد تو دلایا کہ اب وہ عوام کے آقا نہیں بلکہ عوام کے خادم ہیں لیکن قائد اعظم بہت جلد اللہ کو پیارے ہو گئے اور بیوروکریسی کے ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔ یہی نہیں بلکہ یہ ملک ہی افسر شاہی کے شکنجے میں چلا گیا۔
نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک بیوروکریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا اور اس نے قائد اعظم کی اسمبلی ہی کو توڑ دیا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا تو اس بیوروکریٹ گورنر جنرل نے سپریم کورٹ (تب فیڈرل کورٹ) میں یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان ابھی تک ایک آزاد ملک نہیں ہے اور میں ملکہ برطانیہ کا نمائندہ ہوں اور میرے سامنے پاکستان کی پارلیمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ یاد رہے کہ یہ پاکستان کے قیام کے آٹھ سال بعد کی بات ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے یہ موقف ماننے سے انکار کر دیا لیکن سپریم کورٹ نے اس موقف کو تسلیم کر لیا۔ واحد اختلافی نوٹ جسٹس کارنیلیس کا تھا جنہوں نے لکھا کہ یہ موقف اور یہ فیصلہ پاکستان کی خود مختاری کی توہین ہے۔
قائد اعظم کا انتقال ہو چکا تھا۔ لیاقت علی خان کو گولی ماری جا چکی تھی۔ اب کون تھا جو اس نوآبادیاتی افسر شاہی کو لگام ڈالتا؟ چنانچہ یہ مزید منہ زور ہوگئی اور اب کوئی اس کا راستہ روکنے والا نہیں تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کے اختیارات اور مراعات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ رہا۔
یہ بیوروکریسی ایک خاص اقلیت تھی جو لارڈ میکالے کے تصور حکومت کی عملی شکل تھی۔ میکالے یہاں کے نظام تعلیم ہی کے نہیں، یہاں کے نظام قانون کے خالق بھی تھے۔ ان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ سارے ہندوستان کی بجائے صرف ایک محدود اقلیت پر توجہ دی جائے اور ایک ایسا طبقہ پیدا کر لیا جائے جو "رنگ اور خون کے اعتبار سے تو مقامی ہو لیکن اپنے ذوق، فکر، اصول اور اپنے فہم کے اعتبار سے انگریز ہو"۔ ہمارا معاشرہ آج بھی لارڈ میکالے کے پیدا کردہ اسی طبقے کے شکنجے میں ہے۔
اہل سیاست آپس میں لڑتے ہیں لیکن ملک میں ہمیشہ کی حکومت اسی نو آبادیاتی افسر شاہی کی ہے۔ اس کی مگر کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ طبقہ وسائل کے چشموں پر قابض ہے۔ کہیں اس کے لیے اسلام آباد کلب ہے کہیں جم خانہ کلب ہے تو کہیں کسی اور نام سے کلب اور مراعات کدے تعمیر ہوئے پڑے ہیں۔ نام اور عنوانات بدل گئے نو آبادیاتی افسر شاہی کا رویہ اور طرز عمل وہی ہے۔ یہ آج بھی پبلک سرونٹ نہیں آقا ہیں اور یہ آج بھی ہمیں شہری نہیں رعایا سمجھتے ہیں۔
یہ کنال کنال کی گاڑیوں میں پھرتے ہیں، یہ بھنڈی توری اور شلجم کے ریٹ چیک کرنے کے لیے ان گاڑیوں کا لشکر لے کر نکلتے ہیں اور لاکھوں کا پٹرول پھونک کر چند سو روپے کی پرائس کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کے دفاتر میں ان سے ملاقات ممکن نہیں۔ انگریز کے زمانے میں ان سے ملنے کے لیے جیسے مقامی جنٹل مین ضروری ہوتے تھے جنہیں کرسی نشین کا منصب ملا ہوتا تھا۔ ویسے ہی آج بھی رعایا ان سے ملاقات کے لیے کسی ٹائوٹ کی تلاش میں ہوتی ہے۔ ان ٹائوٹوں کو آج کل معززین شہر کہا جاتا ہے۔
حب الوطنی کے ٹھیکیدار یہ ہیں، لیکن ان سے اردو میں بات کی جائے تو یہ کندھے اچکا کر جواب دیتے ہیں: ایکچو ئلی ہمارا اردو ٹھیک ناہیں ہے"۔ آج تک اردو دفاتر کی زبان نہیں بن سکی اور سی ایس ایس کے امتحان اردو میں نہیں ہو سکے تو اس کی وجہ اسی نو آبادیاتی جنٹل مین طبقے کا تسلط ہے۔ یہ صرف زبان کی بنیاد پر قابض ہیں۔
ہمارا قانون 1860 کا ہے۔ ہماری پولیس جارج نیپئر کی وہ پولیس ہے جو آئرش کانسٹیبلری کے اس ڈھانچے پر کھڑی کی گئی جس کے دامن پر فلسطینیوں کے خون کے چھینٹے آج بھی نمایاں ہیں۔ یہ اپنی روح میں پولیس نہیں ایک نیم فوجی فورس تھی جو مفتوح رعایا کو کچلنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ چنانچہ مزاج آج تک وہی ہے۔ تبدیلی کہاں سے آئے گی؟
نو آبادیاتی دور میں فنڈ کی ضرورت پڑتی تھی تو لگان بڑھا دیا جاتا تھا اور وسائل چھین لیے جاتے تھے، اس بیوروکریسی کی فکری ترک تازی آج بھی وہیں ہے کہ بحران آئے تو بوجھ عام پر منتقل کر دو۔ اس کی اپنی مراعات، اس کی تعیشات یہ سب لامحدود ہے۔ اس کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ کوئی حکومت افسر شاہی کی مراعات میں کمی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ عالم یہ ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کے صدر کا وائٹ ہائوس 152 کنال پر مشتمل ہے اور سرگودھا کے کمشنر کا محل 104 کنال پر۔ کون سا ملک ہے جو ایک پبلک سرونٹ کو 104 کنال کے محل میں رکھتا ہو؟ ہم شہری ہیں یا مال غنیمت؟