پی ڈی ایم کے سر پر عزیمت کا سہرا سجانے والے اہل دانش حیران ہیں کہ ہمت و جرات کے اس قافلے نے ابن الوقتی کی دستار پھر سے سر پر کیوں سجا لی ہے اور میں ان حیرتیوں کی حیرت پر " حیرت ناک" ہوں کہ یہ دستار فضیلت، ان کے سر سے اتری ہی کب تھی؟
میر تو سادہ تھے، عطار کے لونڈے سے دوا لے کر خوش ہو رہتے تھے، اہل فکر تو معصوم اور ضدی بھی ہیں کہ " بیعانیے" کو بیانیہ قرار دیے چلے جا رہے ہیں، چوٹ کھاتے ہیں، مسکراتے ہیں مگر عشق بتاں سے باز نہیں آتے۔ پھر کوئی تاویل تراش لی جاتی ہے، کسی تنکے کو جرات کا شہتیر لکھاجاتا ہے اور اقتدار کے کسی مجاور کوعزیمت کا پرچم بردار قراردیا جاتا ہے۔
خوش فہمیوں کی اس ضد میں قصیدے اور نوحے کا فرق مٹ چکاہے۔ یہاں مطلع میں " واہ" کا طنطنہ ہوتا ہے لیکن مقطع تک پہنچتے پہنچتے" آہ" و بکا کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مشاعرے کی شروعات " واہ مولانا " سے ہوتی ہیں لیکن شمع اٹھنے سے پہلے ہی محفل سخن دہائی دینے لگتی ہے: "آہ مولانا "۔ صبح رجز پڑھے جاتے ہیں، شام دہائی ہوتی ہے۔
بادل امڈتے ہیں تو مصرعہ اٹھتا ہے جنابِ زرداری کی بصیرت اب نوید صبح ِصداقت ہے۔ برسات میں جب جل تھل ایک ہو جاتا ہے تو لہجوں میں سیزر کا سوز سراپا سوال بن جاتا ہے۔ آصف زرداری! تم بھی؟ خواہش خبر بنتی ہے تو بیعانیے، کے نام بیانیے کی تہمت دھری جاتی ہے، یہاں تک کہ سراب کی دھند چھٹ جاتی ہے اور مسلم لیگ کا سیکرٹری جنرل اس بیعانیے، کی شرح بیان کر دیتا ہے کہ ضمنی الیکشن جیت گئے تو لانگ مارچ نہیں ہو گا۔
کل سرفروشی کی تمنا یوں مچل رہی تھی کہ عمران خان کو خاطر میں ہی نہیں لایا جا رہا تھا اور پی ڈی ایم کی ساری نازو ادا کا مخاطب " نکے دا ابا " تھا، آج پرانی رفاقتوں کی ڈوری آنکھوں میں یوں آن بسی فسانہ محبت سر محفل بیاں ہو گیا کہ ا سٹیبلشمنٹ سے صرف کچھ شکوے ہیں۔ کچھ شکوے؟ یعنی پیاز بھلے سو ہی رہیں جوتے ذرا کم کر کے بانوے ترانوے کر دیے جائیں شکوہ دور ہو جائے گا۔ اس شعر میں شاعر گویا یہ کہہ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہماری طرف التفات تو کرے، ہم کچی ڈور سے بندھے کھچے نہ چلے آئیں تو تہتر کے آئین کے تناظر میں جو چور کی سزا وہی ہماری۔
ایوب خان نے جب دولت مشترکہ اور امریکہ کے ذریعے معاہدہ کیا تو برطانوی اخبار سنڈے ایکسپریس نے لکھا: نہرو پر اعتماد کرنا حماقت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نہرو پر اعتبار کرنا تاج محل کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ پی ڈی ایم پر اعتبار کرنا کہ وہ جمہوریت کی جنگ لڑے گی شاید اس سے بھی بڑی حماقت ہے۔
پی ڈی ایم کی تعمیر میں ہی خرابی کی صورت مضمر ہے۔ یہ جمہوریت کے سپاہی نہیں اس کے لبادے میں آمریت کے مجاور ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت ختم ہو۔ ان کا شکوہ یہ ہے کہ وہ ہنی مون کیوں ختم ہوا جس نے انہیں شاد مان رکھا تھا۔
یہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نہیں، یہ پاکستان ڈیموکریٹک مونارکس ہیں۔ یہ سب اپنے اپنے دائروں میں آمر ہیں۔ کسی کے ہاں بھی کہیں بھی کسی بھی سطح پر جمہوریت نہیں۔ اویس نورانی، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی خان یہ سب جمہوری بادشاہتوں کے ولی عہد ہیں۔ مریم نواز نائب صدر ہیں مگر سینیئر نائب صدور اور سیکرٹری جنرل کی مجال نہیں ان کے آگے بات کر سکیں۔ خدام ادب کی طرح سینیئر عہدیدار جونیئر عہدے دار کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔ بلاول بھٹو صاحب کو قیادت وصیت میں ملی ہے۔ اس سارے بندو بست میں جمہوریت کہاں ہے؟
جمہوریت ایک طرز زندگی ہے۔ یہ ایک رویہ ہے۔ ان تمام جماعتوں کا اس طرز زندگی اور اس رویے سے کوئی واسطہ نہیں۔ (اور اس میں تحریک انصاف کو بھی کوئی استثنی نہیں)۔ طریق کار کی جس واردات کے ذریعے ان پر اقتدار کے راستے کھل جاتے ہیں اس واردات کو یہ جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ یہ راستے مہران بنک کے ذریعے کھلیں تب بھی گوارا ہے اور چھانگا مانگا کی جانب کوئی کھڑکی کھلے وہ بھی گوارا ہے لیکن اگر یہ عارضی طور پر بند ہو جائین تو پھر جمہوریت خطرے میں ہے۔ پھر سازش ہو گئی ہے۔ پھر ووٹ کی حرمت پامال ہو گئی ہے۔ پھر ہاتھ سر پر ہیں اور ایسی آہو بکا ہے کہ الامان۔
یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ولی عہد قطاروں میں لگے ہیں۔ یہاں قائم علی شاہ اور رضا ربانی جیسی شخصیات نے صف دوم میں ہی رہنا ہے اور قیادت بلاول نے ہی کرنی ہے۔ یہاں راجہ ظفر الحق جیسے بزرگان صرف کاغذ کے پھولوں جیسی چیئر مینی سے جی بہلا سکتے ہیں، قیادت مریم نواز یا پھر جنید صفدر ہی کے پاس جانی ہے، یہاں میاں افتخار حسین یا بلور خاندان جتنی مرضی قربانیاں دے لے قیادت ایمل ولی ہی کو میراث میں آنی ہے۔ یہاں درجنوں اہل علم ہی کیوں نہ ہو قائد محترم میاں اویس نورانی ہی نے کہلانا ہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ جیسی بادشاہتیں ہیں یا جمہوری کلچر ہے؟ پی ڈی ایم کا کوئی قصور نہیں۔ قصور ان کا ہے جنہوں نے دل کی ڈور سے پی ڈی ایم کی پتنگ سے پیچا لگایا تھا۔ عمران کو اقتدار میں آئے دو سال ہوئے ہیں اور اس پر پوری قطعیت سے حکم نافذ کیا جاتا ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ دو سال کے اقتدار پر تو حکم اس قطعیت سے نافذ کیا جاتا ہے لیکن عشروں اقتدار میں رہنے والوں کے بارے میں خوش فہمیوں کے ہمالہ سے آپ اترتے ہی نہیں، یہ کیسی میانہ روی ہے؟
پی ڈی ایم اصول کا علم تھام کر میدان میں نہین آئی۔ یہ سیاسی امکانات کے تعاقب میں میدان میں اتری ہے۔ اس کے ساتھ اس کی پوری تاریخ ہے جو بتاتی ہے کہ ان جماعتوں کا اصول یہی ہے کہ جو دائو جب جہاں اور جس وقت چلتا دکھائی دے وہ لگا دیا جائے۔
اب اگر میدان میں اپنے دائو پیچ آزما رہے ہیں تو اس میں مقامات آہ و فغاں تو آئیں گے۔ بات نہیں بنے گی تو یہ شیر نر کی طرح دھاڑیں گے اور بات بنتی دکھائی دے گی تو سی وی میز پر رکھ کر کہیں گے ہم پرانی تنخواہ پر کام کرنے کو آج بھی تیار ہیں۔ سیاست امکانات کا کھیل ہے اور پی ڈی ایم کی سیاست بھی کسی اخلاقی جزیرے کا نام نہیں۔ پی ڈی ایم کے اس دائو پیچ کے کھیل کو بال ٹو بال دیکھنا چاہیے۔ لیکن اس کے عشق میں مبتلا ہو کر اس کے رجز کہے جائیں گے تو پھر اس بات کا امکان تو رہے گا کہ بیچ میں مقامات آہ و فغاں آ جائیں۔ اس ساری جد جہد کا حاصل صرف اتنا سا ابلاغ تھا کہ:
" اساں جان کے میچ لئی اکھ وے
جھوٹی موٹی دا پا لیا اے ککھ وے
تے ساڈے ولوں تک سجنا"