Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Imran Khan, Al Qadir Trust Aur Qanoon

Imran Khan, Al Qadir Trust Aur Qanoon

اگر کسی فرد کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو کیا اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟ یعنی اگر کوئی شخص سیاسی طور پر مقبول ہو جائے تو کیا وہ قانون سے بالاتر ہو جاتا ہے؟

میں نے تو مرحوم کو ابھی تک نہیں پڑھا لیکن اہل علم بتاتے ہیں کہ یہ فکری جھول اصل میں ابن خلدون صاحب کا ہے۔ سوال مگر یہ ہے ہم نے ریاست کو ابن خلدون صاحب مرحوم کے فلسفے کے تحت چلانا ہے یا مذہب اور آئین کے مطابق؟

نہ دین میں اس بات کی کوئی گنجائش ہے اور نہ آئین میں کہ کسی مقبول رہنما کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو و ہ قانون سے بالاتر ہو جاتا ہے اور اس پر قانون لاگو نہیں ہو سکتا۔ آئین کے تحت، قانون کی نظر میں، تمام شہری برابر ہیں اور قانون کا اطلاق بھی سب پر یکساں ہوگا اور قانون کا تحفظ بھی سب کو حاصل ہوگا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق جب کوئی قوم کمزور پر قانون لاگو کرتی رہے اور طاقت ور کو قانون سے بالاتر سمجھ لے تو وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ عملی طور پر اگر چہ معاملہ ہمیشہ ہی مختلف رہا ہے اور طاقت ور کو دیکھ کر قانون موم ہو جاتا ہے، لیکن نظری اعتبار سے ریاست پاکستان کی جورسپروڈنس کی تشکیل میں ابن خلدون کے اس"نظریہ عصبیت"کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

اس عملی حقیقت کو اس نظری اصول کے تابع لانے کی خواہش اس معاشرے میں ہمیشہ سے رہی۔ اسی حسرت کو عمران خان نے اپنا پرچم بنایا اور لوگوں کو آواز دی کہ آئو ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں قانون سب کے لیے ایک ہو، جہاں سب قانون کے تابع ہوں، جہاں کوئی قانون سے بالاتر نہ ہو اور جہاں انصاف سب کے لیے ہو۔ اسی خواب کا عنوان تحریک انصاف رکھا گیا۔ لیکن افسوس کہ جب قانون نے خود عمران خان صاحب کی دہلیز پر دستک دی تو وہ اور ان کے مداح فلسفہ ابن خلدون کی عملی تصویر بن گئے کہ عمران جیسے مقبول رہنما کوکیسے گرفتار کیا جا سکتاہے۔۔ باقی کہانی ہے اور سب کے سامنے ہے۔

کسی بھی مقدمے کا حتمی فیصلہ تو عدالت میں ہوتا ہے لیکن مقدمے کی تفصیل جب کسی وکیل کے سامنے آتی ہے تو وہ ایک نظر ڈال کر بتا سکتا ہے کہ مقدمے میں جان ہے یا نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ وہ فائل دیکھ کر اپنے موکل کو بتانے کی پوزیشن میں آ جاتا ہے کہ یہ مقدمہ بنتا ہے یا نہیں۔ یہی اسلوب بعض اوقات عدالتوں میں بھی اختیار کیا جاتا ہے جب وہ حتمی فیصلے سے پہلے آبزرویشن دیتی ہیں کہ بادی النظر میں یہ معاملہ ایسا ہے۔

عمران خان صاحب کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کا حتمی فیصلہ بھی عدالتوں میں ہی ہوگا لیکن اس سے پہلے فائل دیکھ کراور تفصیلات جان کر یہ معلوم کرنا بہت آسان ہے کہ بادی النظر میں یہ مقدمہ بنتا ہے یا نہیں اور اس کی نوعیت سیاسی انتقام کی ہے یا یہ ایک سنگین مقدمہ ہے۔

جب ہم اس تفصیل پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے بات اتنی سادہ نہیں کہ سیاسی ہیجان اور عقیدت یا نفرت کی لہر میں دب جائے۔ اس مقدمے کی نوعیت خاصی سنجیدہ اور سنگین ہے۔ اور اس میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق سیاست سے نہیں، قانون سے ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ آگے چل کر ابن خلدونی نظریہ ہی حاوی ہو جائے لیکن مقدمے کی تفصیل بتاتی ہے کہ بادی النظر میں اس مقدمے میں بہت سارے پیچیدہ اور سنجیدہ قانونی معاملات ہیں جنہیں اتنی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

القادر ٹرسٹ کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ ریاست پاکستان نے یا حکومت پاکستان نے عمران خان کے خلاف کوئی سازش کی ہے یا ان کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی تحقیقات کرائیں اور انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا چاہا۔ معاملہ یہ ہے کہ اس سارے قصے سے نیب سمیت کسی کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ قصہ سیدھا سا ہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بحریہ ٹائون کی رقم ضبط کی۔ یہ معاملہ اس ہائوسنگ سوسائٹی اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کا تھا۔

اس ایجنسی نے یہ رقم پاکستان کی ریاست کو بھجوائی تھی۔ یہ 190 ملین پاونڈ اس وقت کتنے روپے بنتے تھے یہ تو معلوم نہیں لیکن آج کے ایکسچینج ریٹ کے مطابق یہ قریب 70 ارب روپے ہیں۔ اور اس میں اگر سود کی شرح شامل کر لی جائے تو رقم کا حجم مزید بڑھ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ رقم کس کی ملکیت تھی؟ حکومت پاکستان کی تھی یا وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ کی تھی یا بحریہ ٹائون کی تھی؟ اس بارے میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ یہ رقم حکومت کی ملکیت تھی اور اسے قومی خزانے میں جانا چاہیے تھا۔

اب اگر یہ رقم قومی خزانے میں جانا تھی اور یہ قوم کی امانت تھی تو یہ رقم عمران خان دور میں بحریہ ٹائون ہی کے جرمانے کی مد میں کیسے ایڈ جسٹ کر لی گئی؟ بحریہ ٹائون کو سپریم کورٹ نے جرمانہ کیا تھا تو اس جرمانے کی ادائیگی بحریہ ٹائون کو اپنی رقم سے کرنا تھی۔ عمران حکومت نے یہ کیا کہ ضبط شدہ رقم جو برطانیہ سے قومی خزانے میں آئی تھی، بحریہ ٹائون ہی کے جرمانے کے طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرا دی اور ایک سر بمہر لفافے میں دستاویز دکھا کر کابینہ سے منظوری بھی لے لی۔

کیا حکومت کے پاس، وزیر اعظم کے پاس یا کابینہ کے پاس کوئی ایسا اختیار ہے کہ کسی نجی سیکٹر کو سپریم کورٹ سے کوئی جرمانہ ہو تو وہ جرمانہ اس نجی سیکٹر کی بجائے حکومت پاکستان اس رقم سے اداکر دے جو رقم قومی خزانے کی امانت تھی؟

یہ معامہ عمران خان کا نہیں ہے۔ یہ بات پاکستان کے نظام قانون کی مبادیات کی ہے۔ اگر یہ روش قبول کر لی جاتی ہے اور یہ رسم چل نکلتی ہے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ ریاست ہی کی زمین پر سوسائٹی بنانے پر ریاست ہی کی سپریم کورٹ کسی ہائوسنگ سوسائٹی کو جرمانہ کرتی ہے اور ریاست اپنے قومی خزانے سے یہ جرمانہ ایڈجسٹ کروا دیتی ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ وہ ٹیڑھی اینٹ ہے جو پورا نظام قانون و تعزیر ادھیڑ کر رکھ دے گی۔

مزید دل چسپ بات یہ ہے کہ عین اس وقت جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے یہ رقم پاکستان حکومت کو دی جا رہی ہے اور پاکستانی حکومت اسے قومی خزانے میں رکھنے کی بجائے اسی بحریہ ٹائون کے جرمانے کی مد میں ایڈ جسٹ کر رہی ہے تواسوقت القادر ٹرسٹ بھی قائم ہو رہا ہے اور زمین کی منتقلی بھی ہو رہی ہے۔ عمران خان خود دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا یہ معمولی بات ہے؟ کیا یہ تحریک انصاف کے ان آدرشوں کے مطابق ہے جو اس قوم کی پلکوں میں خواب کی صورت رکھے گئے؟

مزید یہ کہ ایک صاحب منصب کے لیے مفادات کے ٹکرائو کا جو قانون ہے کیا یہ سارا بندوبست جو عمران دور میں کیا گیا اس قانون کی خلاف ورزی نہیں؟

مناسب ہوگا عمران خان اس مقدمے کا قانونی طور پر سامنا کریں اور ان کے پاس کچھ کہنے کو ہے تو اپنی نیک نامی عدالت میں ثابت کریں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran