تبدیلی سے جو امیدیں اور خوش گمانیاں لپٹی تھیں وہ پہلے پت جھڑ میں ہی سوکھ گئیں۔ خواب اب پتوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔ خزاں کے قاصد کا مگر آج بھی یہی دعوی ہے اگلے ساون میں شہر کی ساری گلیاں عنبر ہو جائیں گی۔ عالم یہ ہے چکور اڑ گئے اوربلبل غم زدگی سے سہمے پڑے ہیں، سندیسہ ِ بہار اب الوئوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ دانا ہی بہت ہوتے ہیں۔ شام اترتی ہے تو وہ سمجھانے آ جاتے ہیں : دیکھو حوصلہ رکھو، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ معیشت کا ستیا ناس اور کاروبار کا سوا ستیا ناس ہوگیا تو کیا غم؟ یہ تو ایک مافیا ہے جو حاکم وقت کوچلنے نہیں دے رہا اور اس کی اپنی ٹیم اس کے ویژن کا ساتھ نہیں دے پا رہی لیکن اے غم کشتو! یہ کیا کم ہے تمہارا حکمران ایماندار ہے، کرپٹ نہیں ہے؟ برادرم خورشید ندیم پوسٹ ٹروتھ کی بات کرتے تھے اور میں مسکراتا تھا۔ اب مجھے چپ لگی ہے اور وہ ہنستے ہیں۔ یہ واقعی پوسٹ ٹروتھ ثابت ہوا۔ اس طلسم کدے کا آخری پڑائو اب یہ ہے کہ کپتان ایماندار تو ہے۔ وہ کرپٹ نہیں ہے۔ وہ تو بہت کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ٹیم اچھی نہیں ملی۔ یہ بات تو اب مشاہدے کی ہے کہ ہر رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے، کپتان کی جیب سے کھوٹے سکے برآمد فرما کر وارفتگی شوق میں اسے قائد اعظم ثانی بنانے کی کوشش کی جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ نواز شریف مبینہ یوم پیدائش کی نسبت سے قائد اعظم ثانی بننے کی جسارت کر سکتے ہیں تو کپتان کھوٹے سکوں کی نسبت سے یہ جسارت کیوں نہیں کر سکتے۔ یہ توکرپٹ بھی نہیں ہیں۔ پوسٹ ٹروتھ کے اس مقطع میں بھی مطلع جیسی تندی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ مقطع بھی مطلع کی طرح نا معتبر ہے۔ دیانت اور کرپشن کی اگر کوئی نئی لغت متعارف کرادی گئی ہو جس میں لکھا ہو ہر وہ شخص کرپٹ ہو گا جو تحریک انصاف میں نہیں ہو گا اور ہر اس آدمی کو ایماندار سمجھا جائے گا جس کا تعلق قافلہ انقلاب سے ہو گا، تو الگ بات ہے۔ لیکن اگر دیانت اور کرپشن کے وہی معانی ہیں جو پرانے پاکستان کی لغات میں لکھے تھے تو اس نومولود دعوے کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔
دیانت کیا ہوتی ہے اور کرپشن کس بلا کا نام ہے؟ یہ بھی کرپشن میں شمار ہوتا ہے کہ خلق خدا کی انگلیاں آپ کے ان مصاحبین کی طرف اٹھ رہی ہوں جن کے آپ کی ذات پر عنایات و احسانات کے راز سے سارا شہر واقف ہو۔ دوست احباب میں سے کون ہے جسے عمران خان صاحب نے صف اقتدار میں شامل نہ کر رکھا ہو؟ جن کے چارٹرڈ طیاروں پر عمرے کیے جائیں انہیں بعد میں اعلی مناصب سے نواز دیا جائے تو اسے دیانت داری کیسے کہا جائے گا؟ جو صاحب ثروت یہ شہرت رکھتے ہوں کہ پارٹی کے اخراجات اٹھاتے ہیں وہ عدالت سے نا اہل قرار پانے کے باوجود بھی سینہ اقتدار میں دل کی طرح دھڑک رہے ہوں تو اٹھتے سوالات کو گلا گھونٹ کر انہیں کسی سونامی کی لہروں پر کیسے اچھالا جا سکتا ہے؟ آٹے اور چینی کے بحران میں آپ کے مصاحبین پر سوال اٹھ رہے ہوں اور آپ آگے سے اقوال زریں سنا کر سب کو خاموش کر دیں تو یہ کیسی دیانت ہے؟ جنہیں آپ ڈاکو، چور، خائن کہتے رہے ہوں اقتدار کی خاطر آپ انہیں ساتھ ملا لیں تو آپ کی دیانت داری کا دیوان کون لکھ سکتا ہے؟ کیا بی آرٹی میں کرپشن نہیں ہوئی؟ کیا وزیر اعلی محمود علی خان کے حکم پر تیار کردہ رپورٹ میں کچھ شخصیات کی طرف انگلی نہیں اٹھی؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ بی آر ٹی پر تحقیقات سے صاحبان اقتدار کو اتنا خوف کیوں ہے کہ حکم امتناعی لینے بھاگتے ہیں۔ دامن صاف ہے تو خود کو احتساب کے لیے پیش کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا وجہ ہے احتساب کا کوڑا صرف حزب اختلاف کی پشت پر برس رہا ہے اور جنہیں آپ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا کرتے تھے وہ آپ کے سب سے بڑے حلیف بن چکے ہیں؟ آپ دیانت دار ہیں اور کرپشن آپ کو دیکھتے ہی راستہ بدل لیتی ہے تو آپ فارن فنڈنگ کیس کا سامنا کیوں نہیں کرتے؟ آپ کا دامن صاف ہے تو آپ نے الیکشن کمیشن سے اپنے15 اکائونٹ خفیہ کیوں رکھے؟ آپ کے دامن پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہ تھا تو سکروٹنی کو خفیہ رکھنے کی درخواست کیوں دی؟ آپ کا دامن اجلا تھا تواکائونٹس کی سکروٹنی سئے بچنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں گیارہ پیٹیشنز کیوں دائر کیں؟ آپ ایماندار تھے تو الیکشن کمیشن میں بہانے کیوں کرتے رہے یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کو فیصلے میں لکھنا پڑا کہ تحریک انصاف نے قانونی طریقہ کار کے غلط استعمال کی بد ترین تاریخی مثال قائم کر دی ہے، کیا اس تمغہ حسن کارکردگی کو آپ کی دیانت کا سہرا سمجھ کر پڑھا جائے؟
اس سے بڑا فکری مغالطہ بھی کوئی ہو سکتا ہے کہ سادہ لوح روحیں اب گلو گیر لہجے میں فرمائیں : کپتان تو بہت کچھ کرنا چاہتا ہے بس اسے ٹیم اچھی نہیں ملی۔ عالی جاہ شق پیچگاں کی یہ ٹیم کس کا حسن انتخاب ہے؟ اقتدار کے حصول کے لیے کیے جانے والے کمپرومائزز کا استدلال قبول بھی کر لیا جائے تب بھی سوالات کا دفتر کھلا رہتا ہے۔ ق لیگ اور ایم کیو ایم سے اتحاد تو آپ کی مجبوری ہو سکتا ہے کہ نمبر گیم میں یہ ناگزیر ہو گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ فردوس عاشق اعوان کے انتخاب میں کیا مصلحت تھی؟ نعیم الحق کا کون سا سیاسی دھڑا تھا کہ اسے ساتھ رکھنا ضروری تھا؟ زلفی بخاری کا میرٹ کیا تھا اور وہ کھڑے کھڑے اتنے ناگزیر کیسے ہو گئے؟ فیصل وائوڈا کس کی نگاہ ناز کا انتخاب ہیں؟ افتخار درانی کی قابلیت کا میدان کیا تھا؟ عزت مآب جناب عثمان بزدار صاحب کس اہلیت کی بنیاد پر وزیرا علی بنائے گئے؟ کس کس کا نام لیں کہ یہاں تو لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند۔ سورج کی جانب پشت کر کے جو اپنے قد کو مینار سمجھتے ہیں، ذمہ داری کا بوجھ انہی کی پشت پر آئے گا۔ استاد ذوق نے کہا تھا : بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی۔ یہاں تو سونامی اترے پڑے ہیں صاحب۔