تحریک انصاف میں اگر عمران خان کا کوئی حقیقی خیر خواہ موجود ہے تو اسے سوچنا ہو گا کہ عمران خان کو ان کے قانونی مشیروں سے کیسے بچایا جائے۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ ان مشیروں کے ہوتے ہوئے عمران خان کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت جتنی جلدی یہ بات سمجھ لے اتنا ہی بہتر ہو گا کہ ان قانونی نابغوں کی وجہ سے حکومت ایک کے بعد دوسرے آئینی بحران سے تو دوچار ہو سکتی ہے، سرخرو نہیں ہو سکتی۔
برسوں پہلے سپریم کورٹ بار میں چند بزرگ سیاست دان اور کچھ وکلاء بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔ اب یہ یاد نہیں کہ وہ کون سا کیس تھا لیکن کوئی اہم مقدمہ تھا جس کی سماعت میں وقفہ ہوا تھا اور یہ لوگ ادھر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ہماری محفل میں روایتی خوش گپیاں چل رہی تھیں کہ بیرسٹر فاروق خان صاحب نے توجہ دلائی کہ ساتھ بیٹھے بزرگان اہم نکتے پر بات کر رہے ہیں اس لیے ضروری ہے اسے سنا جائے اور اس سے سیکھا جائے۔
بیرسٹر صاحب کے مشورے پر ہم سب خاموش ہو گئے اور سننے لگے کہ پڑوس میں کیا گفتگو ہو رہی ہے۔ اس لمبی چوڑی گفتگو کا جو خلاصہ مجھے اس وقت یاد ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ شرکائے محفل کے ہاں چند نکات پر اتفاق تھا۔
پہلا نکتہ یہ تھا کہ حکومتوں کے پاس جو قانونی مشیر ہوتے ہیں ان کی دو اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو قانون دان بھی ہوتی ہے اور سیاست دان بھی اور ان کا ایک حلقہ انتخاب بھی ہوتا ہے۔ حکومت کے دامن سے کوئی بحران آ کر لپٹ جائے یا حکومت آرام اور سکون سے وقت گزارتی رہے، ہر دو صورتوں میں ان کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ سیاسی اعتبار سے بھی اہم ہوتے ہیں، انتخابی سیاست میں بھی ان کی اہمیت ہوتی ہے اور کسی قانونی بحران میں بھی حکومتیں ان سے مشاورت کرتی ہیں۔
دوسری قسم ان مشیروں کی ہوتی ہے انتخابی سیاست میں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہوتا۔ ہر دور میں یہ کسی نہ کسی سہارے کے محتاج ہوتے ہیں۔ ان کی کل جمع پونجی ان کی قانونی مہارت ہوتی ہے اور یہ اس مہارت کے عوض ہر دور میں حکومتی منصب کے امیدوار ہوتے ہیں۔ یہ دوسری قسم کے مشیر حکومتوں کو پھنساتے اور مرواتے ہیں۔
دوسرا نکتہ ان دوسرے مشیروں کے طریق واردات کے متعلق تھا۔ بزرگان کا خیال تھا کہ اس قسم کے مشیر دعا کرتے رہتے ہیں کہ حکومت کسی آئینی اور قانونی بحران سے دوچار ہو جائے اور وہ کھڑے کھڑے حکومتی حلقے کے دولہا میاں بن جائیں۔ انتخابی سیاست یا دیگر سیاسی امور میں ان کی حیثیت اگر ہو بھی تو ثانوی ہوتی ہے کیونکہ کابینہ اور وزیر اعظم کے حلقے میں ان سے بہتر اہل سیاست موجود ہوتے ہیں۔ لیکن جب قانونی بحران اٹھ کھڑا ہو تو اس بحران میں قانونی ماہر ہونے کی وجہ سے ان کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
چنانچہ ہو سکتا ہے یہ دل ہی دل میں دعا کرتے رہتے ہوں کہ اللہ اس حکومت کو کسی بحران سے دوچار کر دے تا کہ ان کی اہمیت بڑھ جائے۔ چنانچہ اگر حکومت کے دامن سے کوئی بحران لپٹ ہی جائے تو یہ اس کا حل تجویز کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ آئین کیا کہتا ہے اور قانون کیا کہتا ہے۔ یہ کھڑے کھڑے الہ دین کے چراغ کا جن بن جاتے ہیں کہ جس بحران کا حل نہیں نکل رہا، کابینہ اور وزیر اعظم یا صدرکے قریبی رفقائے کار بھی بے بس ہوئے پڑے ہیں اس بحران کا حل صرف ان کے پاس ہے۔ بس وزیر اعظم یا صدر محترم چراغ رگڑ دیں یہ اس میں سے جن کی طرح نکلیں گے اور پوچھیں گے: کیا حکم ہے میرے وزیر اعظم، میں کس کو کھائوں؟ اس کے بعد صدر یا وزیر اعظم جس طرف اشارہ کرتے ہیں یہ اس کو کھا جاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ سامنے آئین رکھا ہے یا قانون۔
ان کی قانونی مہارت حاکم وقت کی خیر خواہی نہیں، اس کی پاپوش برداری میں کام آتی ہے۔ یہ حکمران کو آئین کے مطابق نہیں، اس کی خواہش کے مطابق مشورہ دیتے ہیں۔ یہ حاکم کو نہیں بتاتے کہ آئین کیا کہتا ہے، یہ آئین کو کان سے پکڑ لیتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ حاکم کی خواہش کے مطابق ہو جا۔ یہ حکمران کو درست مشورہ نہیں دیتے، یہ اسے بالکل نہیں بتاتے کہ مہاراج آپ جو کرنے جا رہے ہیں وہ غیر آئینی ہے۔
یہ حاکم کی بارگاہ میں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ بادشاہ سلامت، آپ جو حکم کریں گے ہم زکوٹے جن کی طرح آئین کی روشنی میں اس پر عمل کریں گے۔ یہ حکمران کی چوکھٹ پر اپنا سارا " ایل ایل بی" بہا آتے ہیں کہ عالی جاہ، میرے ہوتے ہوئے آئین شائین کے بارے میں پریشان نہ ہوں۔ جو آپ چاہیں گے تعمیل ہو گی۔ آپ ایک اشارہ کریں گے اور میں چراغ کے جن کی طرح آئین میں سے اس کی گنجائش نکال کر آپ کے سامنے رکھ دوں گا۔
یہ قانونی ماہرین نہیں، یہ قانونی مشقتی ہوتے ہیں۔ اس مشقت کے عوض انہیں منصب چاہیے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ الٹے سیدھے مشورے دے دے کر حکمران کو وہاں چھوڑ آتے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔
جب تک کوئی آئینی بحران رہتا ہے ان کی اہمیت دو چند رہتی ہے۔ کبھی وزیر اعظم انہیں مشاورت کے لیے بلاتے ہیں۔ کبھی یہ اہم آئینی نکات پر کابینہ کی رہنمائی فرما رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ بحران سدا قائم رہے اور ان کی اہمیت برقرار رہے۔ اس ڈر سے کہ کہیں ان کی اہمیت ختم نہ ہو جائے، یہ ایک کے بعد دوسرے بحران کو جنم دیتے ہیں۔ اس لیے وزیر اعظم کو اگر کامیاب پارلیمانی سیاست کرنی ہے تو اس کی کوشش ہونی چاہیے وہ پارلیمانی بصیرت سے مدد لے اور آئینی ماہرین اور آئینی بحران سے جس حد تک ممکن ہو، بچے۔
آج آئینی بحران میں گھرے عمران خان کو دیکھا تو سالوں پہلے سپریم کورٹ بار میں ہونے والی یہ گفتگویاد آ گئی۔ عمران نہ پارلیمانی سیاست کے بندے تھے نہ آئین کے ماہر۔ جتنا عرصہ وہ ایم این اے رہے کسی ایک پارلیمانی قائمہ کمیٹی کے رکن نہ بنے۔ حالانکہ یہی کمیٹیاں آپ کو پارلیمانی سیاست کے آداب اور طور طریقے سکھاتی ہیں۔ عمران صرف ایک ہیرو تھے، اچھی ٹیم بنا جاتے تو سرخروبھی ہو سکتے تھے۔ لیکن وہ اپنے رفقائے کار کا انتخاب درست نہ کر سکے۔ یقین نہ آئے تو ان کے وزیروں اور مشیروں کے ناموں پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ یقینا یہ امریکہ کی سازش نہیں تھے، ان کی اپنی افتاد طبع کا مسئلہ تھا۔
عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ سیاست دان کا کھیل کبھی ختم نہیں ہوتااور سیاست میں آخری اوور یا آخری گیند جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ سیاست ایک مسلسل عمل ہے۔ بس آپ کو اسے آئینی اصولوں کے اندر رہ کر کھیلنا چاہیے۔ اقتدار میں آنا اور اقتدار سے نکال دیا جانا اور نکل کر پھر واپس آ جانا، سب امکانات موجود رہتے ہیں۔ سیاست مگر سیاسی انداز سے ہونی چاہیے، قانونی میووں ــ، کے الٹے سیدھے مشوروں سے نہیں۔