"ابتدا ہے رب جلیل کے با برکت نام سے، جو دلوں کے بھد خوب جانتا ہے۔ دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام "۔ ہم رفتہ عشق بھلا اس فقرے کو کیسے بھول پائیں گے؟ جس نسل نے آج کے اینکرز کی غارت گری دیکھ رکھی ہے، اسے کیا معلوم طارق عزیز کیا تھا۔ جو جانتے ہیں، وہ مگر خوب جانتے ہیں کہ یہ کون شخص تھا جو آج اٹھ گیا۔ دل جو لہو سے بھرا پڑا ہے، اس میں درد نے خیمے گاڑ رکھے ہیں اور پلکوں میں ساون اتر آیا ہے۔ فرد نہیں، یہ ایک عہد رخصت ہوا ہے۔ ہمارے بچپن کی ایک حسین یاد ہم سے چھن گئی ہے۔ کسی نے سچ کہا تھا ہم اچانک نہیں مر جاتے، ہم لمحہ لمحہ مرتے ہیں۔ جب ہمارا کوئی عزیز یا دوست مرتا ہے تو س کے ساتھ ہی ہمارے وجود کا ایک حصہ بھی دفن ہو جاتا ہے۔ طارق عزیز صاحب کی خدا قبر منور کرے اور انہیں سایہ رحمت میں جگہ دے، ان کے ساتھ بھی ہماریں کتنی ہی یادیں دفن ہوئی ہیں اور ہماری نسل کے کتنے ہی وجود کٹ کر ان کے ساتھ لحد میں اترے ہوں گے۔
بچپن اور لڑکپن کی یادیں انسان کے وجود میں گڑی ہوتی ہیں۔ انہیں بھلایا جا سکتا ہے نہ فراموش کیا جا سکتا ہے۔ سرد راتوں کے سناٹوں میں، ساون کی ٹپ ٹپ میں، وادیوں میں اترتی کسی شام سمے، یہ اچانک آ کر ہاتھ تھام لیتی ہیں۔ جسم وہیں رہ جاتا ہے، روح سالوں پیچھے چلی جاتی ہے۔ یہ ایک لمحہ ہوتا ہے مگر من میں یوں آسودگی بھر دیتا ہے، سورج کی کرن جیسے سیپ کے دل تک اتر جاتی ہے۔ طارق عزیز بھی ایسی ہی ایک یاد تھی۔ پہلے پیار جیسی۔ پہلو میں اک گرہ سی پڑ گئی ہے، معلوم نہیں پڑ رہا یہ درد ہے یا دل ہے۔
طارق عزیز کا آہنگ، لہجہ، الفاظ اور تخاطب سب ہی کمال تھا۔ پروگرام کے شروع میں وہ جو ایک ابتدائیہ پیش کرتے تھے اس میں کتنی مقصدیت ہوتی تھی۔ اب تو ایک زوال مسلسل ہے۔ کمپیئرنگ وہی ہوتی تھی جو طارق عزیز کیا کرتے تھے، جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں یہ نری بد ذوقی اور بے ہودگی ہے۔ اخلاقیات اور اقدار سے عاری جو کلچر اب مسلط کیا جا چکا ہے اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لوگ یہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ طارق عزیز اس دلیل کی نفی تھے۔ ان کے تمام شوز اور ان کی غیر معمولی مقبولیت اس بات کا ثبوت تھا کہ لوگ کیا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ارطغرل اس ثبوت کا گویا نشر مکرر ہے۔
نیلام گھر 1974میں شروع ہوا۔ یہ ایک ریکارڈ ہوتا اگر بیچ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی سیاسی انا اور انتقام نہ آ گئے ہوتے۔ یہ سلطانی جمہور کا جمہوری قدروں والا دور حکومت تھا جب ایک حکم جاری ہوا اور نیلام گھر بند کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی اور ملک معراج خالد نگران وزیر اعظم بنے تو انہوں نے طارق عزیز کو بلا بھیجا۔ طارق عزیز آئے تو ملک صاحب نے کہا آپ سے میری ایک درخواست ہے۔ طارق عزیز کہنے لگے : آپ حکم کیجیے۔ معراج خالد مرحوم نے طارق عزیز صاحب کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور کہا : میری درخواست ہے آپ اس ہفتے سے اپنا پروگرام شروع کر دیں۔ معراج خالد درست فرمایا کرتے تھے: محبت فاتح عالم۔ طارق عزیز انکار نہ کر سکے۔ پروگرام شروع ہو گیا۔ روایت ہے کہ ملک صاحب نے پی ٹی وی کے سربراہ سے کہا : طارق عزیز کا پروگرام کیسے بند ہو سکتا ہے؟ یہ جو کہیں کہنے دیجیے، طارق عزیز پاکستان کی پہچان ہیں، مجھے شکایت نہیں آنی چاہیے۔
وہ پہلا پروگرام بھی مجھے یاد ہے۔ اس روز طارق عزیز کے ہاتھوں میں لرزش تھی۔ وہ کرسی پر بیٹھے تھے اور ایک خاتون ان سے سوال جواب کر رہی تھی۔ شاید ان سے سوال ہوا تھا یا انہوں نے خود ہی اپنے اضطراب کو محسوس کر لیا تھا، یہ اب یاد نہیں۔ لیکن اتنا یاد ہے انہوں نے اس دن وضاحت کی تھی کہ میانداد جیسا عظیم کھلاڑی بھی کچھ وقت کے بعد جب کھیلنے کے لیے میدان میں اترا تو تھوڑا نروس تھا، تو میانداد جیسا بندہ اس صورت حال سے دوچار ہو سکتا ہے تو طارق عزیز تو ایک معمولی سا کمپیئر ہے۔ اتنی عزت افزائی کے ہنگام اتنی عاجزی، طارق عزیز اس روز بہت اچھے لگے۔
طارق عزیز کا ایک سیاسی سفر بھی تھا۔ میں اسے ان کے تفردات میں شمار کرتا ہوں۔ ہم صرف اس طارق عزیز کو جانتے تھے جو ہر جمعرات رات نو بجے صدا لگاتا تھا : ابتداء ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ اس آواز میں جانے کیا سحر اور فسوں تھا، وجود میں ایک لہر سی دوڑ جاتی تھی۔ طارق عزیز کے ہاں ایک مقصدیت تھی۔ ان کے لہجے میں پورا پاکستان بولتا تھا۔ جب وہ پاکستان کی بات کرتے تو غالب یاد آتے تھے: جذبہ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے۔ کس سادگی اور کس اجلے پن سے وہ اپنا پروگرام کرتے تھے، کتنی مقصدیت تھی ان کے ہاں، کیا شائستہ اور اور مہذب تفریح ہوا کرتی تھی، کس اعتماد سے ماں بیٹا، بہن بھائی سب مل کر اسے دیکھا کرتے تھے۔ کیا پی ٹی وی کے پاس وقت ہے کہ وہ سوچے کیا اب بھی پی ٹی وی کو پورا خاندان مل بیٹھ کر دیکھ سکتا ہے۔
اوائل سرما کی ایک شام میں خانسپور کی خاموش اور سحر انگیز بستی میں رکا۔ ٹی وی لگایا تو طارق عزیز شو لگا ہوا تھا۔ ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور ہاتھوں میں پکڑا مائیک لرز رہا تھا۔ وقت اپنی چال چل گیا تھا۔ لیکن ان کا وقار، ان کی متانت، ان کے لہجے کا طنطنہ سب سلامت تھا۔ یوں لگ رہا تھا کوئی بوڑھا شیر اپنے جنگل میں پھر رہا ہو۔ میں نے سوچا واپس جائوں گا تو طارق عزیز صاحب سے ضرور ملوں گا۔ ان کا ایک تفصیلی انٹر ویو کروں گا۔ یہ وقت مگرنہ آ سکا اور آج طارق عزیز ہمیں چھوڑ کر اللہ کے حضور پہنچ سکے۔
طارق عزیز کے آخری ٹویٹ میرے سامنے رکھے ہیں۔ کلمہ شہادت لکھا ہے۔ گویا وہ کہہ رہے ہیں : انتہاء ہے رب جلیل کے با برکت نام سے۔ رحمن فارس نے کہا تھاـ:
کہانی ختم ہوئی اور ا یسے ختم ہوئی
کہ رو پڑے لوگ تالیاں بجاتے ہوئے