انتخابی نشان سے متصل مسائل کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ انتخابی نشان کیوں دیے جاتے ہیں؟ بیلٹ پیپر کے اوپر امیدواروں کے صرف نام بھی تو لکھے جا سکتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ناموں کے ساتھ انتخابی نشان بھی موجود ہوتے ہیں؟
انتخابی نشان کی ضرورت اس لیے محسوس کی جاتی ہے کہ عوام کی شرح خواندگی کم ہے اور ہر ووٹر نام نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے ووٹر کی آسانی کے لیے عام فہم قسم کی تصاویر کو بطور انتخابی نشان اختیار کیا جاتا ہے تا کہ ووٹر اپنے پسندیدہ امیدوار کے انتخابی نشان کو انتخابی مہم کے دوران دیکھ لے، جان لے اور جب وہ ووٹ دینے آئے تو اسے کوئی الجھن نہ ہو اور وہ اچھی طرح جانتا ہو کہ اس نے کس انتخابی نشان پر مہر لگانی ہے۔
الیکشن ایکٹ کے باب 12 میں دفعہ 214 میں انتخابی نشان الاٹ کرنے کا بنیادی اصول یہ وضع کیا گیا ہے کہ مختلف جماعتوں اور امیدواروں کو دینے کے لیے انتخابی نشانات کی الیکشن کمیشن ایک فہرست بنائے گا اور یہ انتخابی نشان ایک دوسرے سے مختلف ہونے چاہییں اور اس حد تک مختلف ہونے چاہییں کہ دیکھنے اور سمجھنے میں یہ فرق بہت واضح اور نمایاں ہو۔
لیکن عمل کی دنیا اس اصول سے مختلف ہے اور جب ہم الیکشن کمیشن کی جاری کردہ انتخابی نشانات کی فہرست دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم تین بڑی سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشان سے ملتے جلتے نشان الاٹ کیے جاتے رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں یہ اتفاق ہے یا ہر دور کا اپنا 'حسن اتفاق ہے لیکن ہر دو صورتوں میں یہ الیکشن کمیشن کی دیانت پر نہیں تو اہلیت پر ضرور ایک سوالیہ نشان ہے۔
چند مثالوں سے اس 'اتفاق' یا ' حسن اتفاق' کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان 'بلا' ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس کے مقابل ایک اور انتخابی نشانی ' بلے باز' جاری کر دیا۔ اب بیلٹ پیپر پر ایک طرف 'بلا' پڑا ہو اور دوسری جانب ایک بلے باز بلا پکڑ کر کھڑا ہو تو کیا یہ اس اصول کی نفی نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جانے انتخابی نشان ایک دوسرے سے مختلف ہونے چاہییں اور اس حد تک مختلف ہونے چاہئیں کہ دیکھنے اور سمجھنے میں یہ فرق بہت واضح اور نمایاں ہو۔ دفعہ 214 میں Shall be visibly and perceptually different کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ تو کیا بلا اور بلے بازvisibly and perceptually different نشانات ہیں؟
جس زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اسلامی جمہوری اتحاد کے درمیان مقابلہ تھا تو پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان " تیر" کے ساتھ ساتھ ' پنسل' کا انتخابی نشان بھی رکھا گیا۔ یہ میرا پہلا شعوری الیکشن تھا اور جس جماعت کے ا میدوار کا انتخابی نشان سائیکل تھا اسی جماعت کے ایک ذمہ دار کا انتخابی نشان پنسل تھا۔ میں نے حیرت سے سوال پوچھا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک جماعت کے دو لوگ میدان میں آ گئے۔ مجھے ایک قابل احترام شخص نے بتایا کہ نشان تو سائیکل ہی ہے، پنسل کا نشان صرف اس لیے لیا گیا ہے کہ کچھ ووٹ جو 'تیر' کو جانے ہیں، غلطی سے ' پنسل' کو چلے جائیں گے۔ تب کچھ کچھ بات سمجھ میں آئی۔ بعد میں جب جب کسی سے سنا کہ الیکشن لڑنا ایک سائنس ہے تو مجھے تیر اور پنسل کا یہ واقعہ ضرور یاد آیا۔
یہی کام 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہواجب مجوزہ انتخابی نشانات میں شیر کے ساتھ ساتھ بلی بھی رکھ لی گئی۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری ظفر اقبال جھگڑا نے اس پر الیکشن کمیشن کو باقاعدہ تحریری درخواست کی اور مطالبہ کیا کہ بلی کے انتخابی نشان سے ان کے ووٹروں کو غلط فہمی ہو سکتی ہے اور ان کے ووٹ ضائع ہو سکتے ہیں کیو ں کہ بلی اور شیر میں مماثلت ہے، اس لیے اس نشان کو فہرست سے نکالا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس درخواست میں وہاڑی کے ایک حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخاب کا حوالہ بھی دیا گیا کہ وہاں اسی بلی کی وجہ سے شیر کے ووٹ ضائع ہوئے تھے۔
الیکشن کمیشن کی آفیشل ویب سائٹ پر مختلف سیاسی جماعتوں کو جاری کیے گئے انتخابی نشانوں کی ایک فہرست موجود ہے۔ اس فہرست پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 214 کو بے رحمی سے پامال کیا گیا پے۔ اگر انتخابی قوانین کے بارے میں خود الیکشن کمیشن کا رویہ یہ ہے تو کسی اور سے کیا شکایت؟
اصول اور قانون یہ ہے کہ مختلف جماعتوں اور امیدواروں کو دیے جانے کے لیے الیکشن کمیشن انتخابی نشانات کی ایک فہرست بنائے گا اور اس فہرست میں شامل انتخابی نشان ایک دوسرے سے مختلف ہونے چاہییں اور اس حد تک مختلف ہونے چاہییں کہ دیکھنے اور سمجھنے میں یہ فرق بہت واضح اور نمایاں ہو لیکن عملی صورت حال اس سے یکسر مختلف ہے۔
آزاد امیدواران کو چھوڑ دیجیے۔ آئیے فی الوقت صرف ان انتخابی نشانات کا ایک جائزہ لیتے ہیں جو الیکشن کمیشن نے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کو الاٹ کر رکھے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ اس فہرست کے مطابق ایک جماعت کا انتخابی نشان ٹوپی ہے اور دوسری جماعت کا انتخابی نشان چترالی ٹوپی ہے۔
ایک جماعت کا انتخابی نشان بلا ہے اور دوسری جماعت کا انتخابی نشان بلے باز ہے۔ ایک جماعت کا انتخابی نشان ہرن ہے اور ایک کا بارہ سنگھا ایک جماعت کا نشان تیر ہے اور ایک جماعت کو کمان کا نشان دے دیا گیا ہے، تیر کے ساتھ ساتھ پنسل کا نشان ابھی بھی موجود ہے۔ ایک جماعت کا انتخابی نشان انسانی ہاتھ ہے اور ایک جماعت کا انتخابی ہاتھ وکٹری کا نشان بناتا انسانی ہاتھ ہے۔
ایک جماعت کو انتخابی نشان کے طور پر تلوار دی گئی ہے تو دوسری جماعت کو اتخابی نشان کے طوور پر دو تلواریں دی گئی ہیں۔ ایک جماعت کا انتخابی نشان ہوائی جہازہے تو ایک جماعت کاانتخابی نشان جنگی ہوائی جہاز ہے۔ ایک جماعت کا انتخابی نشان بلب ہے تو دوسری جماعت کا انتخابی نشان انرجی سیور ہے۔ ایک کا انتخابی نشان ٹائر ہے تو دوسری جماعت کا انتخابی نشان پہیہ ہے۔ ایک سیاسی جماعت کا انتخابی نشان درخت ہے تو دوسری جماعت کا انتخابی درخت کھجور کا درخت ہے۔ ایک کا انتخابی نشان لیمپ ہے اور دوسری سیاسی جماعت کا انتخابی نشان ٹیبل لیمپ ہے۔
اس سارے عمل میں جو بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے الیکشن کمیشن انتخابی قوانین کو یوں اتنے اعتماد سے کیسے پامال کر لیتا ہے؟ اس سوال سے جڑا دوسرا سوال یہ ہے کہ انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کوئی اور فرد کرے تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی کا اختیار تو الیکشن کمیشن کے پاس ہے لیکن الیکشن ایکٹ کی پامالی اگر خود الیکشن کمیشن ہی کرنا شروع کر دے تو اس کے خلاف کس فورم سے رجوع کیا جائے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ انتخابی نشانات کو ایک مذاق بنا دیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن کی اپنی جاری کردہ فہرست اس پر شاہد ہے۔ (جاری ہے)