سیاسی جماعتوں کو دیے جانے والے انتخابی نشانات کے ساتھ ساتھ انتخابی نشانات کی ایک اور فہرست بھی موجود ہے جو آزاد میدواران کے لیے ہے۔ الیکشن کمیشن کی تیار کردہ یہ فہرست بھی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 214 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس میں ایک انتخابی نشان ڈیپ فریزر ہے اور ساتھ ہی ایک نشان ریفریجریٹر ہے۔
ایک جگہ میز، کو انتخابی نشان کے طور پر درج کیا گیا ہے اور ساتھ ہی 'گول میز' کا انتخابی نشان بھی موجود ہے۔ ایک جگہ رباب ہے تو ساتھ ہی وائلن بھی ہے۔ حیرت ہے کہ الیکشن کمیشن کو کس نے بتا دیا کہ یہ قوم وائلن اور رباب کی شکل مبارکہ سے واقف ہے اور انہیں دیکھ کر سمجھ جائے گی کہ رباب کون سا ہے اور وائلن کون سا۔
اب سادہ سا ایک ہی سوال ہے: کیا یہ سارے انتخابی نشان الیکشن ایکٹ کی دفعہ 214 کے مطابق visibly and perceptually different ہیں اور کیا ایک عام آدمی ان نشانات کو دیکھ کر بہت کسی الجھن میں پڑے بغیر یہ طے کر سکتا ہے کہ اس کا مطلوبہ نشان کون سا ہے؟
یاد رہے کہ انتخابی نشان متعارف کرانے کا فلسلفہ یہ تھا کہ بہت سے لوگ اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے کہ وہ امیدوار کا نام پڑھ کر ووٹ دے سکیں اس لیے ان کے لیے آسان انتخابی نشان وضع کیے گئے تاکہ انہیں ووٹ ڈالتے وقت کسی الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پارلیمان اور الیکشن کمیشن، ہر دو کے سوچنے کا سوال ہے کہ یہ الجھن دور کی گئی ہے یا بدستور موجود ہے؟ نیز یہ کہ قانون کو پامال کرتے ہوئے اس طرح کے انتخابی نشانات کو الیکشن کمیشن کی جانب سے فہرست میں شامل کرنا اہلیت کا بحران ہے یا نیت کا؟
اس سول کا ایک امکانی جواب یہ ہو سکتا ہے کہ بھلے فہرست میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے انتخابی نشانات موجود ہوں لیکن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 217 کی ذیلی دفعہ 5 کے تحت ریٹر ننگ آفیسر جب اپنے متعلقہ حلقے میں انتخابی نشان دے گا تو لازم ہے کہ وہ ایسے نشان دے جو ایک دوسرے سے واضح طور پر الگ ہوں۔ یہ جواب مگر عذر گناہ کے باب میں آئے گا۔ اس لیے کہ یہ بات نہ واقعاتی طور پر درست ہے نہ اصولی اعتبار سے۔
دفعہ 217 کے تحت ریٹرننگ آفیسر کی ذمہ داریاں اپنی جگہ لیکن دفعہ 214 کے تحت یہ الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ انتخابی نشانات کی جو فہرست تیار کرے اس میں کوئی انتخابی نشان ایک دوسرے سے ملتا جلتا نہ ہو اور واضح طور ایک دوسرے سے مختلف ہو۔ اب یہ کہنا کہ کیا ہوا کہ الیکشن کمیشن نے نشانات کی فہرست تیار کرتے وقت دفعہ 214 کو پامال کر دیا، اس غلطی کے ازالے کے لیے ریٹرننگ آفیسر اور دفعہ 217 ہے نا، ایک ایسا رویہ ہے جس کا علم کی دنیا میں کوئی اعتبار ہے نہ دیانت کے باب میں۔
الیکشن کمیشن، الگ سے، پابند ہے کہ اس کی جاری کردہ فہرست میں کوئی ابہام نہ ہو۔ الیکشن کمیشن نے اس ذمہ داری سے انحراف کیا ہے اور الیکشن ایکٹ کی اس دفعہ 214 کو پامال کیا ہے۔ یہ بذات خود ایک جرم ہے۔
پھر یہ مشاہدے کی چیز ہے کہ ہمارے انتخابات میں شیر کے مقابل بلی کا نشان، تیر کے مقابل اس سے ملتی جلتی پنسل کا نشان اور بلے کے مقابل بلے باز کا انتخابی نشان ایک ہی حلقے میں دیا جاتا رہا اور اس سارے عمل میں دفعہ 214 کے ساتھ ساتھ دفعہ 217 بھی پامال ہوتی رہی۔ یعنی نہ مرحلے میں قانون کا خیال رکھا گیا نہ دوسرے مرحلے میں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ الیکشن کمیشن اگر اس رویے کا مظاہرہ کرے گا تو امیدواران سے قانون پر عمل کرنے کی خواہش تشنہ رہنے پر پھر حیرت کیسی؟
کرپٹ پریکٹسز اور انتخابی نشانات کی بحث سے متصل ایک سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا انتخابی نشان کسی کو دیا جا سکتا ہے جو مذہبی علامت کا حامل ہو یا جسے بطور کسی مذہبی علامت کے پیش کیا جا سکتا ہو؟
انتخابی نشانات کے بارے، الیکشن ایکٹ میں مختصر بات کی گئی ہے۔ صرف 5 دفعات اس سے متعلقہ ہیں۔ ان میں اس پہلو پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ تاہم چونکہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 167 بی کے تحت اگر کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگتا ہے یا ان بنیادوں پر کسی کو ووٹ نہ ڈالنے کی ترغیب دیتا ہے تو یہ ' کرپٹ پریکٹسز' میں شمار ہوگا۔ یعنی اس پر تین سال تک قید جرمانہ اور پانچ سال تک نا اہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لیے معلوم یہ ہوتا ہے کہ انتخابی نشان اگر ایسا ہے جو مذہبی علامت ہے یا اسے بطور مذہبی علامت پیش کیا جا سکتا ہے تو اس کی ممانعت ہے۔ چنانچہ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی نشانات کی جو فہرست جاری کی گئی ہے اس میں یہ اہتمام موجود ہے کہ کوئی مذہبی علامت بطور انتخابی نشان جاری نہ کی جائے۔
متحدہ مجلس عمل کو جب ' کتاب' انتخابی نشان کے طور پر دی گئی اور بعد میں یہی انتخابی نشان جمعیت علمائے اسلام کو جاری کیا گیا تو اس پر تحریک انصاف نے یہ اعتراض اٹھایا کہ کتاب کو حلقے میں ' قرآن' سے نسبت دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں یہ تجاویز بھی دی گئیں کہ اگر کتاب ہی کو بطور انتخابی شان باقی رکھنا ہے تو اس پر ABC لکھ دی جائے تو ووٹر کو معلوم ہو جائے کہ مذہبی کتاب نہیں ہے۔
اس معاملے کا اب دلچسپ پہلو یہ ہے اگر کتاب کو قرآن سمجھ کر ووٹ دینے یا ووٹ مانگنے کا امکان موجود ہے تو یہ امکان بھی تو موجود ہے کہ ووٹر کتاب پر ABC پڑھ کر کہے کہ جمعیت علمائے اسلام فرنگیوں کی کتاب پر ووٹ مانگنے آ گئی ہے۔ یہ اب الیکشن کمیشن کے سوچنے کا مقام ہے کہ انتخابی نشانات میں احتیاط برتنی ہے یا نہیں۔
انتخابی نشانات کے حوالے سے عوامی فہم کا معاملہ بھی بڑا دل چسپ ہے۔ حال ہی میں، مارچ 2013 میں مسلم لیگ ن کی ایک درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کر دی۔ درخواست یہ تھی کہ گائے، ہرن اور ریچھ وغیرہ کے انتخابی نشانات کو ختم کیا جائے کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ہمارا ووٹر ان میں اور شیر میں فرق نہ کر سکے اور ہمارا ووٹ ضائع ہو جائے۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس درخواست میں کتنا وزن تھا، یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ ہماری بڑی سیاسی جماعت کا ہمارے ووٹرز کے عمومی شعور کے بارے میں نکتہ نظر کیا ہے۔ سر دست ہم اس نکتے پر بات نہیں کرتے کہ جس سماج کے ووٹر کے شیر، بلی، گائے، ریچھ اور ہرن کی شناخت کی صلاحیت پر ایک بڑی سیاسی جماعت کو یقین نہ ہو اس سماج میں ووٹر کی اہلیت پر ازسر نو غور ہونا چاہیے کہ نہیں لیکن اس پہلو کو تو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ ایسے ووٹر کے سامنے جب سیاسی جماعتیں انتخابی منشور رکھتی ہیں تو اس مشق کی کیا اہمیت اور کتنی معنویت ہوتی ہے؟ (ختم شد)