دنیا بھر میں انتخابات کے بعد ہیجان کم ہو جاتا ہے اور معاملات تھم سے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں انتخابات کے بعد پھر ایک ہیجان اور انتشار کی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایک ہی بار با معنی انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کر لیتے؟
انتخابی مہم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اس کے دوران کسی حد تک تلخی میں اضافہ ایک فطری سی بات ہے۔ لیکن انتخابات کے نتائج آتے ہی چیزوں کو اپنے معمول کی جانب لوٹ جانا چاہیے۔ ہمارے ساتھ مگر عجب تماشا ہوتا ہے۔ یہاں انتخابات ختم ہوتے ہیں تو معاشرے میں دائمی دشمنیاں قائم ہو چکی ہوتی ہیں اور قومی سطح پر نئے فتنے اور نئے مسائل سر اٹھا چکے ہوتے ہیں۔ جو انتخابات سیاسی معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں اور جن کے نتیجے میں افراتفری اور ہیجان میں مزید اضافہ ہو جائے، ایسے نا معتبر انتخابات میں قومی وسائل کو جھونکنے کا آخر فائدہ ہی کیا ہے؟
انتخابات کا یہاں اب اعتبار ہی کیا ہے؟ الیکشن کمیشن کو یہاں حکمت عملی کے تحت متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا اپنا کردار بھی خیر سے کوئی ایسا شاندار نہیں کہ اسے سرخرو کر سکے۔ دور دوور تک ا س بات کا کوئی امکان نہیں کہ شکست خوردہ فریق انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کر لے۔ یہ سارا اودھم ایک منصوبہ بندی کے تحت مچایا جاتا ہے۔ چنانچہ ہر انتخابات نئے بحران کو جنم دیتے ہیں اور معاشرے کی رگوں میں نئی تلخی کا زہر بھر دیتے ہیں۔ سوال وہی ہے کہ ایک ایسی مشق میں غریب قوم کے اربوں روپے کیوں ضائع کیے جائیں جس مشق کے نتائج پر شکست خوردہ فریق کو اعتبار ہی نہ ہو؟ ایک ہی بار سب مل جل کر ایسی انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کر لیتے جو انتخابی عمل کو اس کا اعتبار لوٹا سکیں؟
مسلم لیگ ن انتخابات جیتی تو تحریک انصاف نے 35 پنکچرز کے ترانے پڑھ پڑھ کر دھرتی ہلا دی اور آخر میں کہہ دیا یہ تو سنی سنائی بات تھی۔ اور تحریک انصاف جیت کر آئی تو حزب اختلاف نے پہلے دن سے عمران خان کو سلیکٹڈ، کا طعنہ دینا شروع کر دیا۔ ضمنی انتخابات میں شکست پر ن لیگ کا ابتدائی ردعمل یہ تھا کہ ہم یہ شکست تسلیم کرتے ہیں لیکن وزیر اعلی کے انتخاب سے قبل جناب سعد رفیق کی پریس کانفرنس کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں خوب معلوم ہے تحریک انصاف ضمنی انتخابات کیسے جیتی۔ یعنی مسلم لیگ اب اپنے ہی موقف سے رجوع کر چکی ہے اور عمران خان فارمولے پر عمل پیرا ہے کہ الیکشن کے نتائج آنے سے پہلے ہی دھاندلی کا شور مچا دو۔ پھر ہار گئے تو کہہ دیا ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا دھاندلی ہو رہی ہے اور جیت گئے تو کہہ دیا دھاندلی تو ہو رہی تھی لیکن ہمارے کارکنان نے زور بازو سے دھاندلی کروانے والوں کا سارا کھیل خراب کر دیا۔
اس سارے عمل میں اب نہ کوئی اصول باقی رہا ہے نہ کوئی سپورٹس مین سپرٹ۔ اخلاقیات اور اقدار کا بھی جنازہ نکل چکا۔ سر عام بولی لگتی ہے اور اراکین کو ہوٹل میں جمع کیا جاتا ہے اور وہاں سے ایسے اسمبلی لایا جاتا ہے جیسے کوئی چرواہا اپنے مویشی باڑے میں بند کر دیتا ہو کہ رات کی تاریکی میں کوئی انہیں اٹھا کر نہ لے جائے۔ سوال پھر وہی ہے کہ ایسی مشق کا کیا بھروسہ جو قانونی اور اخلاقی تقاضوں سے اس حد تک بے نیاز ہو چکی ہو۔
ہر انتخابات میں شکست خوردہ فریق ایک جیسے نوحے الاپ رہا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اہل سیاست پارلیمان میں بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کر لیتے۔ یہ ان سوراخوں کو ایک ہی بار بھر کیوں نہیں دیتے جہاں سے ان کے ووٹ نیچے گر جاتے ہیں؟ اتفاق یہ ہے کہ انتخابی عمل کی شفافیت کا خیال صرف اس فریق کو آتا ہے جو ہار جاتا ہے۔ جیتنے والا صرف جشن مناتا ہے۔ جیتنے والے کو انتخابات کی شفافیت کا درد اس وقت ہوتا ہے جب وقت کروٹ لیتا ہے اور وہ الیکشن ہار جاتا ہے۔
تضادات دیکھیے۔ ہر فریق ہر وہ حرکت کر چکا ہوتا ہے جس پر وہ دوسرے کو مطعون کر رہا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ انہی حرکات کے سہارے جب وہ خود جیتا ہوتا ہے تو وہ اپنی زلف کا حسن قرار دیتا ہے اور انہی حرکتوں سے جب کوئی دوسرا جیت جائے تو وہ وہ اسے اس کی زلف کی تیرگی کا نام دیتا ہے۔ یعنی اصول ایک ہی ہے اور سب کا اس پر اتفاق ہے کہ دھاندلی ہم کریں گے تو یہ ہماری ادا ہو گی، دھاندلی کوئی دوسرا کرے گا تو یہ بڑا ہی شرمناک کام ہو گا۔
معاشرے اس واردات سے دھیرے دھیرے بے زار ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بے زاری بڑھتی جائے گی تو ٹرن آئوٹ کم ہوتا جائے گا۔ امر واقع یہ ہے کہ انتخابی عمل پر اہل سیاست ہی کو عدم اعتماد نہیں، ایک عام آدمی کو بھی اس پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔ کسی گلی محلے میں جا کر کسی ان پڑھ ووٹر سے پوچھ کر دیکھیے کہ انتخابات کیسے جیتے جاتے ہیں۔ اس کی بنائی فہرست میں ووٹوں کی ضرورت ایک رسمی کارروائی کے طور پر سب سے آخر میں ملے گی۔ ایسا کیوں ہے؟ جب تک اس سوال پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا، کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔
انتخابی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ جمہوریت اکثریت کی آمریت کا نام نہیں کہ طاقت ملے تو سب کچھ بلڈوز کر دیا جائے۔ جمہوریت اصل میں کچھ اعلی اقدار کو رواج دینے کا نام ہے۔ یہ جتھوں کی صورت بروئے کار آنے کا نام نہیں ہے۔ مزاج اگر جمہوریت کی بجائے فاشزم کی طرف مائل ہو تو بھاری اکثریت بھی جمہوریت نہیں کہلائے گی۔ اسے اکثریتی آمریت کا نام دیا جائے گا۔
وقت آ گیا ہے کہ انتقال اقتدار کے اس عمل کو معتبر کیا جائے اور اس کے لیے لازم ہے کہ قانون سازی کے ذریعے با معنی اصلاحات کی جائیں۔ اصلاحات کا مطلب یہ نہیں کہ گروہی مفادات کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین لانے کا فیصلہ کر لیا جائے اور پھر گروہی مفادات کے تحت اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ اصلاحات راتوں رات درجنوں صدارتی آرڈیننسون کے ذریعے قانون کو بلڈوز کر کے مزاج یار کو قانون بنانے کا نام بھی نہیں ہے۔ اصلاحات یہ ہوتی ہیں کہ گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کچھا صول طے کیے جائیں اور پھر بذریعہ پارلیمان، جمہوری اور پارلیمانی طریقے سے قانون سازی کی جائے۔
اگر ہم یہ بھاری پتھر اٹھا سکتے ہیں تو شاید ہمارے ہاں انتخابی عمل ایک باوقار اور قابل بھروسہ مشق بن سکے۔ لیکن اگر ہم یہ سب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا ہم اپنے اپنے گروہی مفادات کے تحت اصلاح احوال چاہتے ہی نہیں تو پر یہی ہو گا کہ ہم نیا الیکشن اپنے پیچھے نئے بحران چھوڑ جائے گا اور ہمارا معااشرے ایک دائمی اضطراب، نفرت اور ہیجان کی زد میں رہے گا۔
آخری فیصلہ بہر حال اہل سیاست کو کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ان کے سرخرو ہونے یا ان کے رسواہونے کا انحصار بھی اسی فیصلے پر ہے۔