پاکستان کے انتخابی قوانین کا تعلق تو جمہوریت سے ہے لیکن ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آمرانہ جمہوریت کی گرفت میں ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہاں جمہوریت کا تسلسل نہیں رہا، یہاں آمریت کے دورانیے طویل رہے، یہاں صدارتی نظام رہے، چنانچہ قوانین مختلف ادوار کی ضروریات کے تحت جمہوریت اور آمریت کا ایک ملغوبہ سا بن کر رہ گئے ہیں۔ تاہم اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ سیاسی اشرافیہ کا غیر جمہوری مزاج بھی ہے۔
یہ اشرافیہ سیاست اور جمہوریت کی بات تو کرتی ہے لیکن اس کے مزاج کی تہذیب نہیں ہو سکی۔ جمہوریت اس کے نزدیک ایک فکرو عمل کا نام نہیں بلکہ محض حصول اقتدار کا ایک حربہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ ہمیں سیاسی جماعتوں میں داخلی سطح پر جمہوریت نظر آتی ہے نہ ہی ہم اپنے قوانین کی روح کو جمہوریت کے تابع کر سکے ہیں۔ عوام کا ووٹ لے کر صوبائی اور قومی اسمبلیاں وجود میں آتی ہیں۔ یہ کسی فرد واحد یا کسی ایک گروہ کی جاگیر نہیں ہیں، یہ عوام کے حق رائے دہی کے نتیجے میں وجود میں آنے والے معتبر ایوان ہیں۔ ان ایوانوں کی تحلیل کے جو قوانین اس وقت موجود ہیں، وہ سماج کے اجتماعی شعور کی توہین نہیں تو ایک لمحہ فکریہ ضرور ہیں۔
اس معاملے کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں آئین میں 8 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 58 میں 2(b) کا اضافہ کیا گیا اور صدر کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ اپنی صوابدید پر کسی بھی وقت قومی اسمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ اس اختیار کے استعمال کے لیے جو شرط رکھی گئی وہ برائے نام اور مبہم سی تھی۔ لکھا گیا کہ اگر صدر یہ سمجھتے ہیں کہ اب ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ آئین کے مطابق وفاقی حکومت نہیں چلائی جا سکتی تو وہ قومی اسمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں۔
آئین کے مطابق یہ ضروری نہ تھا کہ ایسے حالات واقعی پیدا ہو گئے ہوں۔ آئین کے تحت صرف یہ کافی تھا کہ صدر صاحب ایسا سمجھتے ہوں۔ یہ صدر کا صوابدیدی اختیار تھا۔ جب چاہے ایسا سمجھے اور اسمبلی کو رخصت کر دے۔ ایسا کوئی بندو بست موجود نہیں تھا جہاں یہ تعین کیا جا سکے کہ صدر صاحب نے جو ایسا سمجھا ہے تو کیا درست سمجھا ہے یا غلط سمجھا ہے۔ اسمبلی کے خاتمے کے لیے بس یہی کافی تھا کہ صدر صاحب نے ایسا سمجھا۔ اور جب انہوں نے ایسا سمجھ لیا تو گویا اسمبلی کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ صدر کی ذاتی رائے ہی معیار حق قرار پائی۔
اس اختیار نے پاکستانی پارلیمان کو بازیچہ اطفال بنا دیا۔ اسی اختیار کے تحت جونیجو حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اسی اختیار کے تحت صدر غلام اسحاق خان نے یکے بعد دیگرے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کو پارلیمان سمیت گھر بھیج دیا۔ یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ فاروق لغاری نے اسی قانون کے تحت اپنی ہی جماعت کی حکومت کو ایوان سمیت رخصت کر دیا۔
آئین میں 1997 میں ہونے والی 13 ویں ترمیم میں صدر کے اس اختیار کو ختم کر دیا گیا۔ پرویز مشرف کا دور آیا توآئین میں 17ویں ترمیم کے ساتھ اس اختیار کو بحال کر دیا گیا۔ ساتھ البتہ یہ شرط رکھ دی کہ صدر کے اس اختیار کے استعمال کے لیے سپریم کورٹ کی اجازت و توثیق ضروری ہوگی۔ 18 ویں ترمیم میں صدر کے اس اختیار کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔
یہ معاملہ تو بتدریج حل کر لیا گیا لیکن بہت سی چیزیں آج بھی توجہ طلب ہیں۔ ان میں سے آئین کا آرٹیکل 58 اورآرٹیکل 112 اہم ہیں۔ 58 ٹو بی کو تو ختم کر دیا لیکن آرٹیکل 58 باقی ہے اور اس میں بھی مسائل ہیں۔ یہی معاملہ آرٹیکل 112 کا ہے۔
آرٹیکل 58 بتا رہا ہے کہ قومی اسمبلی کیسے تحلیل کی جا سکتی اور آرٹیکل 112 صوبائی اسمبلی کی تحلیل سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 58 میں وہ وجوہات بیان کی گئی ہیں جن کی بنیاد پر قومی اسمبلی کو وقت سے پہلے تحلیل کیا جا سکتا ہے۔
پہلی صورت یہ ہے کہ اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پاس ہو جائے اور اس کے بعد ایوان میں کوئی ایسا آدمی نہ ہو جسے آئین کے مطابق اکثریت کا اعتماد حاصل ہو۔ اس صورت میں صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ قومی اسمبلی کو تحلیل کر دے۔ اسمبلی تحلیل کرنے کی یہ صورت قابل فہم ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وزیر اعظم جب چاہے (بشرطیکہ اس کے خلاف عدم اعتماد نہ آ چکی ہویا پاس نہ ہو چکی ہو) صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دے دے۔ صدراس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔
اگر صدر وزیر اعظم کے مشورے پر عمل نہیں کرتا تو وزیر اعظم کے مشورے کے 48 گھنٹے بعد اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔ آئین کے آرٹیکل 112 میں بھی یہی اصول ہے، بس قومی اسمبلی کی جگہ صوبائی اسمبلی ہے اور صدر کی جگہ گورنر ہے۔
قانونی اعتبار سے گویا وزیر اعلی اور وزیر اعظم مجاز ہیں کہ عدم اعتماد کے پیش ہونے سے پہلے پہلے جب چاہیں اسمبلی تورنے کا فیصلہ کر لیں۔ یعنی اگر انہیں علم ہو جائے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تیاری ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اقتدار سے محروم ہو سکتے ہیں تو وہ قرارداد آنے سے پہلے پہلے سارے ایوان ہی کو گھر بھیج دیں۔
اس اختیار کا جمہوری اقدار سے کیا تعلق ہے؟ اسمبلی کسی وزیر اعظم یا وزیر اعلی کی جاگیر نہیں ہوتی۔ یہ عوامی نمائندوں سے بنتی ہے۔ الیکشن کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ اس کے پاس پانچ سال کا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ یہ مینڈیٹ عوام کی امانت ہے۔ الیکشن کے عمل پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ کیا اس ساری مشق کو ایک فرد واحد پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ ایک سہانی صبح اٹھے اور پوری اسمبلی کو رخصت کر دے؟
قانون اس بارے بالکل خاموش ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر اسمبلی کو گھر بھیجا جا سکتا ہے؟ کوئی وجہ تو ہونی چاہیے؟ ایک جمہوری نظام میں ایسا آمرانہ اختیار کسی فرد کو کیسے دیا جا سکتا ہے کہ اگر اس کے خلاف ابھی عدم اعتماد نہیں آئی تو وہ پوری اسمبلی کو گھر بھیج سکتا ہے؟ کیا کروڑوں ووٹرز کے ووٹ کا تقدس صرف اتنا سا ہے؟
ایک ایوان کے اندر مختلف جماعتوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہر آدمی ایک حلقے کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ہر نمائندے کو اس کے حلقے کے ووٹرز پانچ سال کا مینڈیٹ دے کر اسمبلی میں بھیجتے ہیں۔ ایسے میں اس اسمبلی کو وقت سے پہلے تحلیل کر دینے کا کوئی جواز تو ہونا چاہیے۔ ایک شخص کو یہ اختیارات کیسے دیے جاسکتے ہیں کہ وہ بغیر کسی وجہ کے خود ہی فیصلہ کر لے اور پورے ایوان کو تحلیل کر دے؟ جمہوریت کے لبادے میں کیا یہ بھی آمریت ہی کی شکل نہیں؟ اختیارات کی یہ تقسیم کیا جمہوریت کی روح سے ہم آہنگ ہے؟ (جاری ہے)