Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Iran Jaisa Inqilab

Iran Jaisa Inqilab

عمران خان کا مقدمہ کیاہے اور ان کا مطالبہ کیا ہے؟ موجودہ بحران کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان دو سوالات کا تفصیلی جواب تلاش کیا جائے۔ پہلے عمران خان کے مقدمے پر بات کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے مطالبے کا جائزہ لیں گے۔

ان کے مقدمے کے دو ادوار ہیں۔ پہلا دور وہ ہے جب وہ اقتدار میں تھے۔ اس دور میں ان کا موقف یہ تھا کہ راہ راست پر صرف تحریک انصاف اور اس کے حلیف ہیں اور ہر وہ سیاسی قوت جو ان کی حلیف نہیں ہے، لازمی طور پر کرپٹ ہے، خائن ہے، چور ہے، بد دیانت ہے اور اس نے ملک کا پیسہ لوٹا ہے۔ اس عہد میں البتہ یہ تھا کہ ریاستی اداروں کو امان تھی۔ فوج، عدلیہ، نیب سب ادارے اچھے تھے اور بہت شاندار کام کر رہے تھے۔

دوسرا دور اس قت شروع ہوتا ہے جب وہ اقتدار سے الگ کر دیے گئے۔ اب ان کے مقدمے کے دلائل کی وسعت میں اضافہ ہوگیا اور اہل سیاست کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے بھی ان کے بیانیے کی لپیٹ میں آ گئے۔ ان کے خیال میں یہ امریکی سازش تھی اور تمام اداروں نے اس سازش میں سہولت کاری کی۔ کسی کو میر صادق کا خطاب دیاگیا تو کسی کو میر جعفر کا۔ اب کسی کو امان نہ تھی۔

اس وقت تحریک انصاف کا بیانیہ اسی دوسرے دور کی نفسیات کے زیر اثر مرتب پارہا ہے۔ اس بیانیے کا خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہے:

پہلا نکتہ یہ ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے۔ جن لوگوں نے عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا ہے، وہ ان کی جان لینا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے الفاظ مستعار لیں تو ایک تعیناتی، کے لیے لندن پلان میں نواز شریف کے ساتھ معاملہ کیا گیا اور عمران خان کے راستے مسدود کر دیے گئے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس خطرے کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی ریاستی ادارے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ڈر یہ ہے کہ یہ سب مل کر عمران کی جان لینا چاہتے ہیں۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ عدالت کی جانب سے وارنٹ گرفتاری بھی آ جائے تب بھی گرفتاری نہیں دینی کیونکہ اس صورت میں بھی جان کو خطرہ ہے کہ عدالتی حکم پر گرفتار کرنے کے بعد پولیس راستے میں انہیں قتل نہ کر دے۔ یا پھر ان کے ساتھ وہی تذلیل آمیز سلوک نہ ہو جو اعظم سواتی کے ساتھ ہوا۔ اس لیے گرفتاری کی تو گنجائش ہی موجود نہیں ہے اور عمران ہماری ریڈ لائن ہے۔

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ عدلت پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ عدالت بلائے گی تو عدم اعتماد کے ساتھ پیش ہوا جائے گا اور وہ پیشی اپنی شرائط پر اور اپنے انداز سے ہوگی۔ یہاں تک کہ ہر شے کو بے بس کر دیا جائے گا۔ عدالت سماعت کا مقام بدلے گی، سار دن بیٹھ کر انتظار کرے گی، پھر عدالت کے اہلکار خود پیش ہو کر حاضری لگائیں گے۔

اس مقدمے کا پانچواں نکتہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بھی ا س قابل نہیں کہ اس کا اعتبار کیا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر بھی انہی کے ساتھ ملا ہوا ہے جنہوں نے عمران کو اقتدار سے الگ گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کے بارے تحریک انصاف کی قیادت اور خود عمران خان بہت سخت الفاظ استعمال کر چکے ہیں۔

گویا اس وقت تحریک انصاف کا مقدمہ یہ ہے کہ اس ریاست کا کوئی ادارہ قابل اعتبار نہیں۔ سب کے سب فریق ہیں اور عمران کے مخالف۔ اس بیانیے نے پارٹی کی فکری صورت گری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں کیا کیا جائے؟

عمران خان نے اتفاق سے آج ہی اس سوا ل کا جواب دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران جیسا انقلاب آئے گا،۔ سوال یہ ہے کہ ایران جیسا انقلاب کسی معاشرے میں کیسے آتا ہے؟ یہ جمہوریت سے تو نہیں آتا۔ نہ ہی ووٹ کے ذریعے آتا ہے۔ نہ ہی آئین میں اس کی کوئی گنجائش موجود ہے۔

آئین کے اندر جمہوری انداز سے انتقال اقتدار کی گنجائش تو موجود ہے لیکن کسی انقلاب کی نہیں۔ جمہوری بندو بست اور انقلاب میں ایک جوہری فرق ہے۔ جمہوری نظام حکومت بقائے باہمی کی بنیاد پر کھڑا ہے اور اس میں صاحب اقتدار پر چیک اینڈ بیلنس موجود ہوتاہے۔ انقلاب کسی بقائے باہمی جیسے تکلف کا قائل نہیں اور وہ کامل اقتدار کا نام ہے۔ عمران خان ماضی میں بار بار کہہ چکے ہیں کہ ایران جیسا انقلاب لانا ہے اور چین جیسا انقلاب لانا ہے۔ گویا ان کی افتاد طبع ایک ایسے اقتدار کی خواہاں ہے جہاں کسی حزب اختلاف کا درد سر نہ ہو اور انہیں یہ شکوہ نہ کرنا پڑے کہ نیب نے ویسا احتساب کیا نہیں جیسا وہ چاہتے تھے۔

انقلاب تب آتا ہے جب کوئی ایک گروہ ریاست سے طاقت ور ہو جائے اور ریاست اس کے سامنے بے بس ہوکر سرنڈر کر دے۔ کیا پاکستان میں تحریک انصاف اتنی طاقت ور ہو چکی ہے کہ وہ ایران جیسا انقلاب لانا چاہے گی تو پاکستان کی ریاست شاہ ایران کی طرح ان کے آگے بے بس ہوجائے گی؟ ریاست حکمت کے تحت صرف نظر ضرور کرتی ہے لیکن پاکستانی ریاست اتنی بے بس نہیں ہے۔ اس سے زیادہ خوش کن نعروں کے ساتھ پیدا ہونے والے چیلنجز سے وہ نبٹ چکی ہے۔ اسے بے بس کر دینے کی خواہش، غیر حقیقی ااور تباہ کن خواہش ہے۔

پھرکیا پاکستان میں عمران خان کی ایسی مقبولیت ہے کہ ملک کے چاروں صوبے ان کے انقلاب کے آگے سر تسلیم خم کرد یں۔ انتخابات جیتنے کے لیے درکار مقبولیت کی نوعیت مختلف ہوتی اور انقلاب لانے کے لیے درکار مقبولیت کے تقاضے بھی کچھ اور ہوتے ہیں اور رجال کار کے بھی۔ تحریک انصاف کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔

انقلاب ایران جیسی کوئی کاوش، ظاہر ہے کہ ماورائے آئین ہوگی۔ معاملات ریاست اگر کسی ماورائے آئین اقدام ہی سے طے کرنے ہیں تو پھر آئین، جمہوریت ا ور انتخابات کی ضرورت ہی کیا ہے؟ انقلاب اور عرب سپرنگ جیسی باتیں بظاہر بہت اچھی لگتی ہیں لیکن آخری تجزیے میں یہ سب تخریب کے عنوانات ہیں۔ معاشرے انقلاب سے نہیں، ارتقاء سے بدلتے ہیں۔

سیاست کیا ہے؟ یہ اختلاف کے باوجود، بقائے باہمی کے آداب کانام ہے۔ جمہوریت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ تا کہ کسی فتنے اور فساد کے بغیر انتقال اقتدار کو ممکن بنایا جا سکے۔ اب اگر سیاست اور جمہوریت میں یہ دونوں خوبیاں موجود نہ رہیں پیچھے کیا بچتا ہے؟ تباہی، تخریب، ہیجان اور انتشار۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ ہم اسی خطرے سے دچار ہو چکے ہیں۔

عمران خان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مسائل کتنے بھی کیوں نہ ہوں، سیاسی قیادت کا امتحان اور اس کا حسن یہی ہوتا ہے کہ وہ انہیں جمہوری انداز سے آئین کے دائرہ کار کے اندر رہ کر حل کرے۔ چیزیں ارتقا سے بہتر ہوتی ہیں، انقلاب سے نہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ایک تنوع پایا جاتا ہے۔ جمہوری، آئینی اور ارتقائی جدوجہد میں یہ تنوع زاد راہ کا کردار ادا کر سکتا ہے، انقلاب میں نہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran