نیم خواندہ معاشرے میں سیاست کے اپنے تقاضے ہوں گے، جھوٹ، بڑھکیں، نعرے، تماشے سب کچھ سکہ رائج الوقت ہوگا۔ لیکن کیا ہم اپنے اہل سیاست سے یہ درخو است کر سکتے ہیں کہ کم از کم معیشت کو بازیچہ اطفال نہ بنایا جائے؟
ابتدائی علامات اطمینان بخش ہیں۔ اس وقت جب آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے، وزیر اعلی کے پی، علی امین گنڈا پور وزیر اعظم شہباز شریف سے جا کر ملتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد علی امین گنڈا پور کی طرف سے آنے والا بیان بھی خوش آئند ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ملک ہم سب کا ہے اور ملک کی معیشت کا جو حال ہے وہ بھی ہم سب جانتے ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے اگر اہل سیاست اس بات کو سمجھ جائیں تو مسائل کی دلدل سے نکلنا کچھ اتنا مشکل نہ ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا رویہ بھی بتا رہا ہے کہ وہ معیشت کے مسائل کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ نجکاری کی حمایت پیپلزز پارٹی کے لیے آسان نہیں۔ اس نے کارکنان کی فوج اداروں میں بھرتی کر رکھی ہے اور نجکاری کی شکل میں ان کارکنان کی ناراضی ایک فطری امر ہے۔ سیاسی مجبوریاں ہیں اس لیے پیپلز پارٹی یہ بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے اور کابینہ کا حصہ نہیں ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی یہ بات اچھی طرح جان چکی ہے کہ نجکاری ضروری ہے۔ اس کا اعتراف کرنا اس کے لیے مشکل ہے کیونکہ یہ بھٹوکی نیشنلائزیشن کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کا اعتراف کرنے والی بات ہوگی۔ تاہم پیپلز پارٹی حکومت کے لیے مسائل پیدا نہیں کر رہی اور اسے موقع دے رہی ہے کہ نجکاری کا عمل پورا کر لے۔ یہ عمل پورا ہونے تک پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ نہیں ہوگی تا کہ ناراض کارکنان کے عتاب کا شکار نہ بن جائے لیکن نجکاری کا عمل مکمل ہونے کے بعد سیاسی ضرورت کے تحت ہلکی پھلکی تنقید کرکے اگر پیپلز پارٹی کابینہ میں شامل ہو جائے تو کسی کو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف یہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں حکومت کے مسائل سے آگا ہ ہیں۔ تحریک انصاف پہلے نہیں تھی اب اسے بھی معلوم ہے حقائق اور مسائل کیا ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب تحریک انصاف ابھی حکومت میں نہیں آئی تھی اور معاشی مسائل کی تشخیص اور حل کے لیے اس کا اپنا ایک بیانیہ تھا۔ وہ بیانیہ اب پٹ چکا۔ اب سب کو آ ٹے دال کا بھائو معلوم ہو چکا اور سب اس پوزیشن میں ہیں کہ معیشت کے تقاضوں کو سمجھ سکیں۔
تحریک انصاف کا خیال تھا کہ معاشی بد حالی کی اصل وجہ کرپشن ہے۔ اس کا دعوی تھا کہ ملک لو ٹ کر غیر ملکی بنکوں میں اتنے ارب ڈالر پڑے ہیں کہ اگر وہ واپس آ جائیں تو سارا قرض اتر جائے۔ اس کا بیانیہ تھا کہ اصل خرابی یہ چور ہیں۔ اس کا عزم تھا کہ خود کشی کر لینی ہے لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا۔ پھر کیا ہوا؟ جب حکومت ملی تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔
اب بڑھکوں کا دور گزر چکا۔ عوامی جذبات میں جھوٹے نعرے لگا کر آگ لگانے کا وقت بھی بیت چکا۔ لمبے لمبے دعوے بھی اب کسی کام کے نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ حقائق کیا ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ معیشت کی خرابی کی وجہ کیا ہے۔ سستے سیاسی نعرے لگا کر نیم خواندہ قوم کو دھوکے میں رکھنا جرم سے کم نہیں۔ جو حقائق ان اہل سیاست کو حکومت سنبھالنے کے بعد سمجھ آتے ہیں وہ حقائق انہیں اپوزیشن میں بھولنے نہیں چاہییں۔ معیشت کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ا س پر مزید جھوٹ بڑھکیں تماشے اور نعرے۔۔ یہ سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے۔
معیشت کو ہم نے کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سیاسی جماعتوں کے پاس معاشی ماہرین کی سرے سے کوئی ٹیم ہی نہیں ہے۔ اپنے وزرائے خزانہ پر ہی ایک نظر ڈال لیجیے۔ ہمارے دوسرے وزیر خزانہ چودھری محمد علی ایم ایس سی کیمسٹری تھے۔ ایم ایس سی کیمسٹری کا معیشت سے کیا تعلق؟
ہمارے تیسرے وزیر خزانہ سید امجد علی بھی برطانوی راج کے سول سرونٹ تھے۔ 1955 میں وہ امریکہ میں پاکستانی سفیر تھے اور امور خارجہ کی گتھیاں سلجھاتے تھے اور 1956میں وہ پاکستان کے وزیر خزانہ بن کر معاشی امور کی سمت درست فرمانے لگ گئے۔
پاکستان کے پانچویں وزیر خزانہ عبد القادر سنجرانی تھے۔ ایک زمانہ تھا وہ کینیا میں پاکستان کے سفیر تھے، پھر ایک وقت آیا وہ وزیر صحت بنا دیے گئے کہ سفارت کاری بہت ہوگئی اب ذرا صحت کے معاملات ٹھیک کر دیجیے۔ اس کے بعد صاحب کو پاکستان کا وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔
ایڈمرل سید محمد احسن بھی پاکستان کے وزیر خزانہ رہے۔ پاکستانی بحریہ کے سربراہ رہے۔ مشرقی پاکستان میں گورنر بھی رہے۔ دفاع کے معاملا ت پر ان کی بڑی گرفت تھی لیکن یحیی خان کے دور میں وزیر خزانہ بنا دیے گئے۔
بھٹو صاحب کا دور آیا تو ڈاکٹر مبشر حسن کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ موصوف سول انجینئر تھے اور محکمہ آبپاشی میں ملازم تھے۔ بعد میں سکالر شپ پر ایم ایس سی کرنے امریکہ گئے تو اسی سول انجیئرنگ میں۔ پی ایچ ڈی بھی سول انجینئرنگ میں کی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو اسی سول انجینئرنگ میں۔ لیکن وزارت انہیں خزانہ کی مل گئی چنانچہ پاکستانی معیشت کی وہ سول انجینئرنگ، کی کہ وہ آج تک سیدھی نہیں ہو سکی۔
مبشر حسن کے بعد بھٹو صاحب نے رانا محمد حنیف خان کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ موصوف کی "معاشی قابلیت" یہ تھی کہ وہ وکیل تھے اور لنکنز ان سے بار ایٹ لاء تھے۔ بھٹو صاحب نے ہی رانا حنیف کے بعد ایک نیا وزیر خزانہ متعارف کرایا۔ یہ حفیظ پیرزادہ صاحب تھے۔ ان کی معاشی امور میں مہارت غیر معمولی تھی۔ وہ بھی وکیل تھے اور لنکنز ان سے بار ایٹ لاء کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ وہ معیشت کو اتنی اچھی طرح سے سمجھتے تھے کہ بھٹو کو جس مقدمے میں سزائے موت ہوئی اس میں بھٹو کے وکیل بھی یہی تھے۔ موصوف بھٹو دور میں وزیر قانون بھی رہے، وزیر خزانہ بھی رہے، وزیر تعلیم بھی رہے اور وزیر اطلاعات بھی۔
اگلے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان۔ برطانوی دور کے سول سرونٹ تھے۔ تعلیمی قابلیت کیمسٹری اور باٹنی میں بی ایس سی تھی۔ ڈیفنس سیکرٹری بھی رہے اور حتی کہ صدر پاکستان بھی۔ منتخب اسمبلیوں کی جتنی معیشت انہوں نے "سیدھی" کی، شاید ہی کسی نے کی ہو۔
ایک وزیر خزانہ یسین وٹو صاحب تھے۔ ان کی معاشی قابلیت ایل ایل بی، تھی۔ پنجاب بار کونسل کے چیئر مین بھی رہے۔ بھٹو صاحب نے انہیں صرف وزیر خزانہ ہی نہیں بنایا، وزیر تعلیم بھی بنائے رکھا۔ بھٹو صاحب کے کافی بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو انہوں نے احسان الحق پراچہ کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ احسان الحق پراچہ کی معاشی مہارت بھی ایل ایل بی تھی۔
بیچ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کی معاشی سمجھ بوجھ تو مسلمہ تھی لیکن وہ مقامی معیشت کے مسائل اور امکانات سے لاعلم تھے۔ ان کا تعلق بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے تھا اور وہ اعداد وشمار کی بے رحم پیچیدگیوں ہی کو معیشت کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ اہل سیاست کو کب سمجھ آئے گی کہ انہیں اپنی جماعتوں میں معاشی ماہرین پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔