یہ مملکت ہمارے لیے اللہ کا انعام ہے لیکن ہم اس کی ناقدری کرتے جا رہے ہیں۔ اس کفران نعمت کا انجام خوفناک ہو سکتا ہے۔ اردو پاکستان کی قومی ز بان ہے لیکن کسی کو اردو بولنا پسند نہیں۔ قانون انگریزی میں ہے۔ دفتری زبان انگریزی ہے۔ ایک دوسرے سے لوگ کندھے اچکا اچکا کر انگریزی میں گفتگو فرماتے ہیں۔ اسلام آباد میں اب احساس کمتری کے مارے لوگ نخرے سے کہتے ہیں: ہماری اردو اچھی نہیں ہے۔ جن کا احساس کمتری ناسور بن چکا ہے وہ دوسروں کے لیے حقارت کے طور پر " اردو میڈیم" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
شلوار قمیض ہمارا قومی لباس ہے۔ لیکن اسے پہننا جہالت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تہذیب کی علامت اب یہی ہے کہ جولائی اور اگست میں بھی ٹو پیس پہنے رکھو۔ میر ظفر اللہ خان جمالی پر، سب سے پہلے پاکستان والے پرویز مشرف صاحب کو جو واحد اعتراض تھا وہ یہی تھا کہ جمالی صاحب تو شلوار قمیض پہنتے ہیں، ایسے بندے کو وزیر اعظم کیسے بنایا جائے۔ عالم یہ ہے کہ اب دیہاتوں میں شادیاں ہوتی ہیں تو اپنی شناخت پر شرمندہ مخلوق شلوار قمیض کی بجائے پینٹ کوٹ چڑھا لیتی ہے اور دولہا میاں بن جاتی ہے۔
ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے لیکن شاید ہی کسی شہر، گلی یامحلے میں اب ہاکی کھیلی جاتی ہو۔ پوری قوم میں سے شاید ہی کوئی ہو جسے اس قومی کھیل کے کھلاڑیوں یا کپتان کا نام آتا ہو۔ ہاکی کے کھلاڑیوں کا معاوضہ کرکٹ کے کھلاڑیوں سے اور ہاکی فیڈریشن کا بجٹ کرکٹ بورڈ کے بجٹ سے شاید ہزاروں گنا کم ہو۔ کسی بھی سطح پر قومی کھیل کی ترویج کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔
گنے کا رس ہمارا قومی مشروب ہے لیکن پورے ملک میں پوری قوم کو ایک گلاس بھی معقول انداز میں پینے کے لیے دستیاب نہیں۔ سڑک کنارے مکھیاں بھنبھنا رہی ہوتی ہیں اور غلیظ ہاتھوں سے نیم دھلے گندے گلاسوں میں قومی مشروب قوم کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ آج تک ایسا کوئی بندوبست نہیں ہو سکا کہ یہ قومی مشروب ذرا مہذب اور شائستہ انداز سے قوم کو پلایا جا سکے۔
پاکستان کے ریاستی نشان (Emblem)میں پٹ سن کی فصل موجود ہے لیکن پورے ملک میں پٹ سن کی ایک بوری کاشت نہیں ہوتی۔ جس علاقے میں یہ کاشت ہوتی تھی وہ اب ہمارا حصہ نہیں رہا بس ایک تصویر ہے جو باقی رہ گئی ہے۔
علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں اور عالم یہ ہے کہ وزرائے کرام تک کو اقبال کے شعرپڑھنے نہیں آتے۔ حتی کہ ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے جو ادارے بنائے گئے ان کی تقاریب میں بھی ٹرکوں پر لکھے شعر اقبال سے منسوب کر دیے جاتے ہیں۔ اقبال کی نثر سے قوم ویسے ہی آگاہ نہیں اور وہ صرف انہیں قومی شاعر کے طور پر جانتی ہے۔ شاعری کا عالم یہ ہے کہ اقبال کی 60 فیصد شاعری فارسی میں ہے اور قوم کو ویسے ہی سمجھ نہیں آتی۔ اور جو 40 فیصد شاعری اردو میں ہے اس کا نوے فیصد حصہ نوے فیصد قوم کے فہم اور ذوق سے بلند ہے۔ چنانچہ صحافت سے سیاست تک، اقبال کے چند شعر ہیں جنہیں مرضی کے معانی پہنا کر حسب ضرورت استعمال کر لیا جاتا ہے۔ قومی شاعر کے بارے میں قوم کے مبلغ فہم کی کہانی بس اتنی سی ہے۔ آئین ہماری سب سے محترم قومی دستاویز ہے لیکن یہ محترم دستاویز بار بار پامال ہوتی رہی۔ عالم یہ ہے کہ ٹریفک قوانین کی پامالی پر سزاملتی ہے لیکن آئین کی پامالی پر آج تک کسی کو سزا نہیں مل سکی۔
فاطمہ جناح ہماری مادر ملت ہیں لیکن ہم انہیں الیکشن میں دھاندلی سے ہروا دیتے ہیں اور ان کی کردار کشی کی مہم چلاتے ہیں۔ لیاقت علی خان ہمارے شہید ملت ہیں لیکن ان کے قتل کی تفتیش آج تک مکمل نہیں ہو سکی۔ وہ جہاز ہی تباہ ہو گیا جس میں آئی جی صاحب تفتیش کی واحد فائل لے کر جا رہے تھے۔ دوسری فائل گورنر جنرل صاحب کے ہاں گئی اور واپس آئی تو خالی فائل تھی۔ اندرسے کاغذات غائب تھے۔
ریاست کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہاں ابھی تک اسلام نافذ ہو سکا ہے نہ جمہوریت رواج پا سکی ہے۔ ریاستی ڈھانچے کی تو بات ہی کیا یہاں تو ابھی تک سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں آ سکی جماعتوں کی سربراہی اب لوگوں کو وصیت کے ذریعے میراث میں آتی ہے۔
ہمارا ملک زرعی ملک ہے۔ لیکن زراعت سے وابستگی سے ہم شرمندہ ہو جاتے ہیں کہ کہیں ہمیں کوئی پینڈو نہ کہنے لگ جائے۔ جاگیر داروں اور زمینداروں سے اسمبلی بھری پڑی ہے لیکن اراکین اسمبلی کے پروفائل میں دلچسپی کے میدان میں ز راعت مل جائے تو یہ بریکنگ نیوز ہو گی۔ ایگرو اکانومی کے حوالے سے آج تک کوئی مربوط پالیسی نہیں لائی جا سکی۔
ہر ملک کی ایک تہذیب اور ثقافت ہوتی ہے۔ لیکن ہم نے اپنی ثقافت کا گلا گھونٹ دیا اور جدت کے شوق میں سب کچھ گنوا بیٹھے۔ پگڑیاں اب ہوٹلوں کے باہر کھڑے نوکر پہنتے ہیں۔ جناح کیپ جسے صدر، وزیر اعظم اور چیف جسٹس وغیرہ کے سر پر ہونا چاہیے تھا، اب عدالتوں اور اقتدار کے ایوانوں میں درجہ چہارم کے خدام کو پہنا دی گئی ہے۔
ہم عملی طور پر منافقت کو بہترین حکمت عملی قرار دے چکے ہیں۔ آئین میں ہم نے چند اقوال زریں لکھ دیے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہے۔ آئین ریاست کی معتبر ترین دستاویز ہوتی ہے لیکن ہم اپنے نصاب میں آج تک بچوں کو نہیں پڑھا سکے کہ آئین کیا ہوتا ہے اور قوم کے عہد اجتماعی کے طور پر اس کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ آئین میں حقوق کے نام پر کچھ اقوال زریں شامل تو ہیں لیکن انگریزی میں لکھے گئے ان اقوال سے قوم کی غالب اکثریت لاعلم ہے اور شاید بالادست طبقات کو یہی مقصود و مطلوب ہے۔
ابھی بھی وقت ہے جاگ جائیے۔ یہ نعمت جو ہاتھ آگئی ہے اس کی قدر کیجیے۔ یہ ملک ہمارے لیے اللہ کا انعام ہے۔ ہم اس کی ناقدری کر رہے ہیں۔ ہم کفران نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔