سردیاں آتی ہیں تو گائوں یاد آتا ہے۔ جاڑے کی شبِ ماہتاب میں خنکیِ فسوں پھونکنے لگتی ہے۔
رات جلد گھر لوٹتا ہوں، علی کو کہانی سنانا ہوتی ہے۔ کہانی سنے گا تو سوئے گا اور وقت پر سوئے گا تو سکول جائے گا ورنہ وہی حکمت بھرے مشورے کہ بابا سکول کو اتنی فیس دینے کا کیا فائدہ، اس کے کھلونے لے لیتے ہیں اور پڑھائی تو گھر بیٹھ کر بھی ہو ہی سکتی ہے۔ ہماری کہانی میں نئے زمانے کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ یہ تتلیوں، جگنوئوں، برفزاروں، گلہریوں، لومڑیوں اور جنگلوں کی کہانی ہے۔ ایک دن اس نے پوچھ لیا : جگنو کیا ہوتا ہے؟ اور کتنی ہی شامیں ہم دونوں ندی اور جھیل کنارے جگنو تلاش کرتے رہے۔ جس کے بچپن کی گرم دوپہریں تتلیوں کا تعاقب کرتے اور شامیں جگنوئوں کو مٹھی میں بند کرتے گزری ہوں اسے بیٹے کو دکھانے کے لیے اب ایک جگنو نہیں مل رہا تھا۔ وقت ہی نہ رہا، وقت کی بات ہے۔
ایک پوری تہذیب دیکھتے ہی دیکھتے اجنبی ہو گئی۔ جگنو اور تتلی تو ہم نے ڈھونڈ لیے اور جھیل کنارے درختوں پر گلہریاں بھی، لیکن کتنا کچھ ہے جس کا کہیں کوئی سراغ ہی نہیں۔ مارگلہ کے جنگل میں تو پھر تہذیب رفتہ کے مظاہر موجود ہیں، اگر چہ سہمے سہمے سے ہیں لیکن باقی شہروں کو تو جدت نے چاٹ کھایا ہے۔ چند سالوں میں یہ کیا سے کیا ہو گیا۔ ایک تہذیب کے کتنے ہی رنگ مدھم پڑ گئے۔ وقت کا دھارا صدیوں سے بہتا چلا جا رہا ہے اسے کون روک سکتا ہے لیکن وقت کے بہتے دھارے میں اتنی تندی حیران کیے دیتے ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی اتنی تیزی سے یہ کیا سے کیا ہو گیا۔
تبدیلی کے کچھ رنگ بہت اچھے ہیں۔ آسائشات بھی آئی ہیں اور سہولیات بھی۔ ان کی افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں اور سچ تو یہ ہے ان کے بغیر اب گزارا بھی نہیں۔ لیکن تہذیب رفتہ کی جھریوں میں اپنا بچپن جھانکتا ہے اور یادوں کی برسات میں بھیگنے کے بعد احساس ہوتا ہے قوس قزح میں کتنے ریگزار اترچکے۔ علی موبائل کے الارم پر جاگتاہے، میری آنکھ گھر کے صحن میں کینو، امرود اور سنبل پر چڑیوں کی چہچہاہٹ سے کھلتی تھی۔ چڑیوں کی چہکتی چہچہاتی ٹولیوں کے شور سے آنکھ کا کھل جانا، یہ وہ نعمت ہے جس کا آج کے بچے تصور نہیں کر سکتے۔ مغرب کے بعد وہ گلیوں کا سنسان ہو جانا اور عشاء کی نماز کے ساتھ ہی گائوں میں وہ آدھی رات کا اتر آنا، آج جن کی راتیں جاگتی ہیں انہیں کیا معلوم وہ کیا طلسم تھا جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
گھڑیاں دیکھ کر رنج حیات کھینچنے والے کیا جانیں طلوع ہوتے سورج سے جھانکتی وارفتگی اور ڈوبتے سورج سے لپٹی وہ اداسی کیسی ہوتی تھی، انہیں کیا معلوم دھمی کا ککڑ کیسے بولتا تھا، شکر دوپہر کا سناٹا کیا ہوتا تھا اور ڈیگر ویلاکس ٹھہرائو کا نام تھا۔ گلوبل ولیج کے چوراہے کے بیچ میں بیٹھ کر ساری رات فیس بک پر " ہاہاہا " لکھ کر ہنسنے والوں کو کیا خبر سرد راتوں کی کہیڑ میں آگ کا الائو جلا کر، اپنے ہی کسی کزن کا دیسی مرغ چرا کر، اس بے خبر کو ساتھ بٹھا کر کھاتے ہوئے واقفان حال کے قہقہوں میں کتنی چاشنی ہوتی تھی۔
برائلر انڈے کھا نے والی اس نسل کو کیا معلوم جب مرغی کٹ کٹ کٹاک کرتی تھی تو بھاگ کر کسی کونے سے اس کا انڈہ تلاش کرنے میں کیا لطف چھپا ہوتا تھا۔ چار ہفتوں میں جس نسل کو ہاتھی جتنا برائلر تیار ملتا ہو اسے کیا خبر انڈوں پر بیٹھی مرغی کو جب تیسرا ہفتہ لگتا تھا تو ننھے چوزوں کو دیکھنے کی خواہش کتنی بے کراں ہو جاتی تھی اور انڈے توڑ کر نکلے ننھے چوزوں کو کٹ کٹ کرتی مرغی کے پیچھے بھاگتے دیکھنا اور دانہ ڈالنا من کو کیسے شانت کرتا تھا۔ آج کی نسل کو کیا معلوم سرد راتوں میں گیدڑ کی آوازاور صبح دم گھر کے صحن میں مرغ کی ککڑوں کوں میں کیا حسن پنہاں ہوتا تھا۔
جس نسل کا چاند مفتی منیب اور مفتی پوپلزئی چڑھاتے ہوں اسے کیا خبر چھت پر کھڑے ہو کر اپنے اور عید کے چاند کو بیک وقت دیکھنا کتنا راحت افزاء تجربہ ہوتا تھا۔ بیری کو وٹے مار کر بیر کھانا، جامن پر چڑھ کر ٹہنی ہلا ہلا کر جھولی بھر لینا اور کپڑوں کا ستیا ناس کر لینا، ٹھیکیدار سے آنکھ بچا کے اپنے ہی باغ سے کینو چوری کر لینا، بہتے پانی کی کھال پر کسی دھریک کے نیچے چارپائی ڈال کر پانی میں ٹانگیں رکھ کر تپتی دوپہرکوئی ناول پڑھتے گزار دینا، سردیوں کی شام میں تنور کی روٹی پر مکھن میں ساگ ڈال کر کھانا، ددھانے کا دودھ، بوہلی، چاٹی کی لسی، گنے کی رہو، تازہ گڑ، تہذیب رفتہ کے کیا روپ تھے۔ تنور کی روٹی کا ذکر چلتا ہے تو زیاں کا احساس رگ میں اتر جاتا ہے۔ جس نے یہ سوغات چکھ رکھی ہے اسے معلوم ہو گا اسے تعارف اور تحسین کی حاجت نہیں۔ گیس کے جعلی تنوروں پر نان کی شکل میں پاپڑ کھانے والے کو البتہ سمجھایا ہی نہیں جا سکتا تنور کی روٹی کیا ہوتی ہے؟
ہم نے اپنے ہاتھوں کیا کچھ گنوا دیا۔ ہمارے اپنے مقامی بیج تھے، تباہ کر دیے گئے، اب بیج باہر سے آتے ہیں اور فصلوں کے ذائقے روٹھ چکے۔ گاجر جو کبھی سرخ ہوتی تھی اب زرد ہو گئی ہے۔ دیسی لہسن ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ گندم کا خالص آٹا شہروں میں نایاب ہو چکا۔ شہد اسلامی تو ہو چکا، کیا عجب اگلے جاڑے میں اپنے اپنے فرقوں کی پیکنگ میں بھی دستیاب ہو لیکن جنہوں نے بیری اور دھریک سے شہد اتار کر چکھ رکھا ہے وہ جانتے ہیں شہد کیا ہوتا ہے اور شہد کے نام جو چیز وافر مقدار میں وطن عزیز میں پائی جاتی ہے وہ کم از کم شہد نہیں ہے۔ کیلا اب میزائل کے سائز کا ہے مگر ذائقہ موجود نہیں۔ چتری والا کیلا قصہ ماضی ہو چکا۔ حیرت ہے اب کوئی تربوزہ سفید نہیں ہوتا، جسے کاٹو وہ آگے سے نعرہ لگاتا ہے اب لال لال لہرائے گا۔ لیکن ذائقہ نہیں ہے۔ کھانے لگو تو وہ منہ چڑاتا ہے : اب ہوش ٹھکانے آئے گا۔ فراق گورکھ پوری نے کہا تھا:
جانے کیا بات ہے، کس چیز کی یاد آتی ہے
شام کو روز طبیعت مری گھبراتی ہے