سوشل میڈیا پر لوگ اپنے مقامی مسائل پر بات کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ کوئی احساس کمتری ہے جو انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل پر بات کرنے سے روکتا ہے اور وہ بین الاقوامی امور کی گتھیاں سلجھاتے رہتے ہیں؟ یا پھر یہ بر صغیر کے سماج پر صدیوں کی غلامی کے اثرات ہیں کہ رعایا صرف شاہی خاندان کے اقبال بلند ہونے کی دعائیں کرتی رہتی ہے اور اس کے نزدیک زندگی صرف عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر کے فضائل بیان کرتے رہنے اور ان کی مجاوری میں ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ کر سماجی تعلقات تک ختم کر لینے کا نام ہے؟
عمران خان کے بچے لندن میں ہیں۔ جس ریاست کا وزیر اعظم ان کا باپ ہے اس ریاست کی قومی زبان میں وہ بات نہیں کر سکتے۔ شناختی کارڈ بھی اس ملک کا لینا شاید انہیں گوارا نہ ہو لیکن یہاں خلق خدا اپنے بچوں کو اس سلگتے موسم میں بغیر بجلی پانی کے سکولوں میں بھیج کر سوشل میڈیا پر نعرے لگاتی ہے: ہینڈ سم سا تو ہے۔
آصف زرداری کا نامہ اعمال آپ کے سامنے ہے اور سندھ حکومت کا بھی۔ سندھیوں کو سندھی زبان میں لگا کر اپنے صاحبزادے کو لندن سے تعلیم دلوائی، وہ جب گفتگو فرماتے ہیں تو رعایا نہال ہو جاتی ہے کہ ولی عہد کی " انگریجی" سنی، کیسے فر فر بولتا ہے۔ سندھ کے ہسپتالوں میں ان کے بچے برآمدوں میں مر جائیں انہیں پرواہ نہیں، یہ ولی عہد کی انگریجی، پر فدا ہیں اور ان کا بھٹو زندہ ہے۔
نواز شریف نے عرصہ یہاں حکومت کی، پھر ایک وقت آیا معلوم ہوا ان کا صاحبزادہ تو پاکستان کا شہری ہی نہیں۔ اس لیے ان کے پاس اثاثے جہاں سے بھی آئے ہیں، آپ کو کیا تکلیف ہیں۔ چنانچہ رعایا نواز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز ہی کے نہیں اب جنید صفدر کے سہرے بھی کہہ رہی ہے کہ اللہ اللہ ملک کی رہنمائی کے لیے کیسے کیسے ہیرے اس خاندان میں تیار بیٹھے ہیں۔
کبھی رعایا پرویز مشرف جیسے آمروں کے فضائل بیان کرتی ہے۔ کبھی چیف جسٹس کی جانثار بن جاتی ہے، اور کبھی ڈیم کے چندے لینے والوں پر نثار ہونے لگتی ہے۔ لیکن اس نے طے رکھا ہے کہ اپنے مسائل پر بات نہیں کرنی۔ بھلے اس کے بچوں کے لیے ڈھنگ کا ایک تعلیمی ادارہ نہ ہو، اس نے زرداری نواز اور عمران کے بچوں کے سہرے کہنے ہیں۔ اپنے بزرگ بھلے علاج نہ ہونے سے مرجائے لیکن نواز شریف کے پلیٹ لیٹس پر اس نے نوحے پڑھ پڑھ کر جنگلوں اور پہاڑوں کو بھی رلا دینا ہے۔ ان کی اوقات یہ ہے کہ بنک میں ان کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی، یہ تپتے سورج میں لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور وہاں بھی ان کی گفتگو اپنی توہین پر نہیں ہوتی بلکہ ان کا موضوع کوئی ہینڈ سم یا کوئی بیانیہ ہوتا ہے یا اس دھوپ میں بھی ان کا بھٹو زندہ ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر کل ایک گروپ پر نظر پڑی اور دل خوش ہو گیا۔ کسی صاحب نے سرگودھا سے یہ گروپ بنایا ہے اور اس کا نام ہے " جاگو، سرگودھا جاگو"۔ میں نے یہ گروپ دیکھا اور مجھے محسوس ہوا یہ میرے نالوں کا جواب ہے جو افلاک سے آیا ہے۔ اس گروپ کا حسن یہ ہے کہ اس میں مقامی مسائل پر بات ہو رہی ہے۔ کوئی کسی کا مجاور نہیں ہے۔ یہاں رعایا نہیں، شہری موجود ہیں جو اپنے مسائل پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ بیچ میں کچھ مجاور آتے ہیں لیکن صرف عذر گناہ لے کر، اپنے اپنے شاہی خاندان کے کرتوت کو حسن عمل کہنے۔
آئیے دیکھتے ہیں اس گروپ میں کیا لکھا جا رہا ہے۔ نمونے کے طور پر تازہ ترین چند پوسٹیں میں آپ سے شیئر کر دیتا ہوں:شاہد انجم تصویر شیئر کر کے لکھتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے ہو گئے ہیں، مین روڈ سیٹلائٹ ٹائون پر بجلی کی یہ تاریں ایسے ہی ٹوٹی پڑی ہیں۔ واپڈا والے اس انتظار میں ہیں کہ کوئی بڑاحادثہ پیش آ جائے۔ عارف چودھری نے تصویر شیئر کی ہے کہ بھلوال کے قریب ڈائیوو کی تھکی ہوئی بس گرمی میں خراب ہوئی کھڑی ہے اور مسافر ذلیل ہو رہے ہیں۔ (بس کا خراب ہو جانا کوئی خبر نہیں یہاں خبر یہ ہے کہ اس کمپنی کی بسیں جو ناکارہ ہو کر دیگر روٹس پر نہیں چل سکتیں سرگودھا کے روٹ پر بھیج دی جاتی ہیں)۔ نعمان مصطفی نے لکھا ہے: کیا آپ جانتے ہیں کہ پوری یونیورسٹی روڈ پر کہیں بھی گاڑی پارک کرنے پرتیس روپے ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ انس خواجہ تجویز دے رہے ہیں کہ سڑک کے ساتھ درخت لگانے کا منصوبہ بناتے ہیں تا کہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر یہ کام کیا جا سکے۔ طارق اعوان لکھتے ہیں کہ پرائیویٹ ہسپتالوں نے سرکاری پارکوں اور سڑکوں پر اپنے پارکنگ ایریاز بنا کر پیسے لینے شروع کیے ہوئے ہیں، اس کے خلاف آواز اٹھائیے۔ ولید اعوان نے ٹرسٹ پلازہ کے ساتھ پل کے نچے کی ایک ویڈیوشیئر کی ہے جہاں منشیات کے عادی ایک دوسرے کو سر عام ٹیکے لگا رہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں انتظامیہ کہاں ہے۔
ایک ویڈیو بہت دردناک ہے۔ اس میں باپ سکول کے سامنے بچوں کو اتار رہا ہے اور ایک کار ڈرفٹنگ کرتے ان پر چڑھ جاتی ہے۔ جاگو سرگودھا میں شور مچا ہے کہ یہ کس فیملی کا بگڑا منڈا تھا جو گاڑی چلا رہا تھا۔ سب سے زیادہ شکایات پولیس، لوڈ شیڈنگ اور کنٹونمنٹ بورڈ کی سامنے آ رہی ہے۔ کہیں کوڑا پڑاہے۔ کہیں پولیس تشدد سے بچوں کے قتل پر بات ہو رہی ہے۔ چھوٹے سے شہر میں اس گروپ کے 59 ہزار ممبران ہو چکے ہیں۔ جنہیں نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں رہے گا۔ سرگودھا میں بین الاقوامی امور کے وہ ماہرین جو امریکی صدر کو مشورے دیتے رہتے ہیں اگر اسی طرح مقامی مسائل پر بات کریں تو شہر کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہ مشورہ سیاسی مجاوروں کو دینا بے کار ہو گا کیونکہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام عام شہریوں کو کرنا ہو گا جوابھی تک کسی کے حصے کے بے وقوف نہیں ہیں۔
جاگو سرگودھا جاگو اپنی نوعیت کی شاندار کوشش ہے۔ میں اس گروپ کو مبارک دیتا ہوں کہ کرنے کا کام یہی ہے جو انہوں نے شروع کیا ہے۔ یہ رسم آگے چل کر جاگو پاکستان جاگو میں بدل جائے تو ملک میں تبدیلی آ جائے گی۔