اگر آپ سوال کریں کہ اس وقت پاکستان کے سب سے شاندار اور متحرک پارلیمنٹیرین کون صاحب ہے تو اس کا ایک ہی جواب ہے: جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد۔ اگر آپ پوچھیں کہ پاکستان میں عوامی مسائل اور محرومیوں کو سب سے بہتر انداز میں کس نے موضوع بنایا ہے تو اس کا بھی ایک ہی جواب ہے: جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن۔ اسی طرح اگر آپ جاننا چاہیں کہ پاکستان میں احتجاجی سیاست کو عوامی حدت اور شعور کا رنگ کس نے دیا ہے تو اس کا بھی ایک ہی جواب ہے: جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمن۔ لیکن اگر کوئی گستاخ حد ادب سے تجاوز کر کے یہ پوچھ بیٹھے کہ پاکستانی سیاست میں امیر جماعت اسلامی کا اپنا کیا کردار ہے تو ڈر لگتا ہے اس کا جواب تلاش کرتے کرتے آدمی خود سوال نہ بن جائے۔
ووٹ بنک تو جماعت اسلامی کا کبھی بھی قابل رشک نہیں رہا لیکن ملکی سیاست میں اس کا غیر معمولی اور فعال کردار ہوا کرتا تھا۔ ملکی سیاست کی نظریاتی صف بندی میں اس کی حیثیت ایک قائد کی تھی اور دائیں بازو کا بیانیہ اسی کی فکر سے پھوٹتا تھا۔ پھر ایک زوال مسلسل نے اس کی دہلیز پر دستک دی اور آج یہ عالم ہے کہ نہ اس کے پاس ووٹ بنک ہے نہ کوئی بیانیہ۔ امیر جماعت اسلامی الیکشن لڑتے ہیں اور دیر جیسے گڑھ سے ہار جاتے ہیں اور خطاب کرتے ہیں تو یہ سیاق و سباق سے بے نیاز اقوال زریں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ سیاسی جماعت دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی، آخری تجزیے میں سماج کا فکری اثاثہ ہوتی ہے۔ اب اگر جماعت اسلامی جیسی جماعت برف کے باٹ کی صورت دھوپ میں پڑی ہو تو اس سے افسوس پگھل کر کیسے نہ بہے۔
قومی سیاسی بیانیے میں آج جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے؟ ایسا کیا ہوا کہ ایسی بڑی جماعت قومی سیاست سے غیر متعلق سی ہو گئی؟ راکھ میں کچھ چنگاریاں ہیں جو سینیٹر مشتاق احمد، حافظ نعیم الرحمن اور مولانا ہدایت الرحمن کی صورت سامنے آتی ہیں لیکن ساتھ ہی ایک سوال بھی چھوڑ جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سینیٹر مشتاق احمد پارلیمان میں قابلیت کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں، اگر حافظ نعیم الرحمن کراچی کے سینے میں دل کی طرح دھڑک سکتے ہیں اور اگر مولانا ہدایت الرحمن گوادر کے خاموش درودیوار کو قوت گویائی دے سکتے ہیں تو قومی سیاسی منظر نامے میں امیر جماعت اسلامی اتنے غیر متعلق کیوں ہو چکے؟
ایوان میں اکثریت نہ سہی، ایوان سے باہر ایک جاندار بیانیہ تو پیش کیا جا سکتا ہے جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے۔ سراج الحق صاحب سے احترام کا تعلق ہے لیکن حقیقت یہ ہے وہ خطاب کر رہے ہوں تو اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جو لوگوں کو متوجہ کر سکے۔ کوئی متوجہ ہو جائے تو اس کے لیے ایک منٹ سے زیادہ توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کمی کا احساس شاید جماعت اسلامی کو بھی ہو چکا ہے چنانچہ اپنے تئیں انہوں نے اس کا علاج کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن طبیب حاذق شاید جماعت اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم تھی، چنانچہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ مروجہ سیاسی کلچر کے تحت ردیف قافیے ملا کرفقرے تراشے جانے لگے جو امیر جماعت اسلامی کے بیانات کی شکل میں اخبارات کی زینت بننے لگے۔
سمجھنے کی بات یہ تھی کہ امیر جماعت کا منصب سید مودودی کا منصب ہے۔ اس منصب سے جاری ہونے والے بیان یا خطاب کی وجاہت اس کے ردیف قافیوں کی تک بندی نہیں بلکہ اس کی فکری وجاہت اور سیاسی حکمت و بصیرت ہے۔ میں نے جب جب سراج الحق صاحب کو سنا، یہی سوچتا رہا کہ وہ فکری وجاہت کیا ہوئی اور وہ سیاسی حکمت و بصیرت کہاں گئی؟
خرم مراد جماعت اسلامی کے آخری فکری دانشور تھے۔ پروفیسر خورشید احمد معیشت کے باب میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز میں پروفیسر صاحب سے رہنمائی کا موقع ملتا رہا۔ ان کی محفل میں ایک علمی اور فکری وجاہت ہوتی تھی۔ معیشت ہی نہیں، سیاست پر بھی جب وہ بات کرتے تھے تو یکسوئی اور دلیل کے ساتھ کرتے تھے۔ ایسا کبھی نہ ہوا کہ انہوں نے برائے وزن بیت کچھ کہہ دیاہو یا اقوال ز ریں سنا کر محفل لوٹ لی ہو۔
گئے وقتوں کی نمی کا اب بھی سراغ ملتا ہے۔ سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان بات کرتے تھے تو سامع کے لیے ممکن نہیں رہتا تھا توجہ کہیں اور لے جائے۔ یہی عالم اب سینیٹر مشتاق خان صاحب کا ہے۔ ان سے اتفاق اور اختلاف کی گنجائش یقینا رہتی ہے لیکن ایک پارلیمنٹیرین کو جیسا ہونا چاہیے مشتاق احمد خان ویسے ہی ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ہر سیاسی جماعت مشتاق احمد جیسے پانچ پانچ پارلیمنٹیرین ہی لے آئے تو ایوان کا ماحول کتنا بدل جائے۔ اسی طرح خدمت خلق کے باب میں دیکھ لیجیے الخدمت فائونڈیشن کا کوئی مقابل ہی نہیں۔ الخدمت نے جو کام کیا ہے وہ قابل تحسین ہی نہیں، قابل تقلید بھی ہے۔ سوال اب وہی ہے کہ جس کارکردگی کا مظاہرہ الخدمت اور یہ افراد کر رہے ہیں ایسی کارکردگی کا مظاہرہ امیر جماعت کیوں نہیں کر سکتے؟
جماعت کی سنجیدگی اور سیاسی بصیرت کا احول جاننا ہو تو بس ایک خبر کفایت کرے گی کہ اب وہ ملک میں 101 دھرنے دینے جا رہی ہے اور آخری دھرنا" فیصلہ کن "ہو گا۔ جماعت کے بیت المال اور کارکنان کی جسمانی توانائی کو ضائع کرنے کی اس سے شاندار صورت شاید ہی کوئی اور ہو جو جناب امیر جماعت نے تجویز کی ہے۔ ایک یا دو نہیں پورے 101 دھرنے۔ یوں لگتا ہے ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک این جی او ہے جو سال کے اختتام تک اپنے اجلاس اور سیمینار کی کارروائیاں ڈال ڈال کر تعداد پوری کرنا چاہ رہی ہے تا کہ سند رہے اور کام آئے۔
معلوم نہیں یہ حالات کا جبر ہے یا قیادت کا بحران لیکن جماعت اسلامی قومی سیاست سے غیر متعلق ہوتی جا رہی ہے۔ جی کے بہلانے کو اب اس نے اپنا ایک یوٹیوپیا بنا رکھا ہے اور وہ خوابوں کے اس جزیرے میں خوش ہے۔ چنانچہ خوابوں کے اس جزیرے میں امیر محترم کی موجودگی میں کارکنان نعرے لگاتے ہیں: وزیر اعظم سراج الحق، اور انہیں کوئی بتانے والا نہیں ہوتا کہ امیر محترم دیر جیسے گڑھ سے بھی الیکشن ہار چکے ہیں۔
کارکنان بھی کیا کریں۔ نعرے تو سیاست کا حسن ہیں۔ اب قیادت نے اپنی پالیسیوں سے جماعت کو قومی سیاست سے غیر متعلق کر دیا ہو تو وہ اقوال زریں اور خوابوں ہی کو نعروں کی شکل دیں گے۔ قیادت کے لیے اب یہ سوچنے کا مقام ہے کہ وہ اس وقت کہاں کھڑی ہے ا ور قومی سیاست میں اس کا کیا کردار ہے۔
کافی وقت ہو گیا، میں نے خیال خاطر احباب میں یہ سوچ کر جماعت اسلامی پر لکھنا ہی چھوڑ دیا کہ ایک کونے میں دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہی ہے تو کھاتی رہے۔ اب اسے کیا تنگ کرنا۔ یہ101 دھرنوں والی بات گدگدا گئی اور خود پر قابو نہ رکھ پایا۔ اس جسارت پر میں البتہ پیشگی معذرت خواہ ہوں اور جملہ صالحین سے دست بستہ درخواست کرتا ہوں کہ اس گستاخی پر مجھے معاف کر دیں آئندہ ایسا کوئی کالم نہیں لکھوں گا۔ حل صرف جماعت اسلامی۔