جید علماء عشروں کی رفاقت چھوڑ کر الگ ہو رہے ہیں اور اپنے سمدھی جناب غلام علی صاحب کو گورنر بنوا کرکے قائد ملت اسلامیہ گورنر ہائوس میں نماز جمعہ ادا فرما رہے ہیں۔ سارے احترام کے باوجود سوال اب یہ ہے کہ قافلہ حق کو اب بھی اسلام کے علماء کی جمعیت ہی لکھا اورپڑھا جائے یا اسے جمعیت علمائے خاندان سمجھا جائے؟
محترم حاجی غلام علی مولانا فضل الرحمن کے سمدھی ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی اہم منصب کے لیے ان کا انتخاب ہوا ہو۔ جن وقتوں میں ایم ایم اے ہوا کرتی تھی جسے ناقدین مُلا ملٹری الائنس کہتے ہیں، ان وقتوں میں پشاور کے ضلع ناظم کی ذمہ داریاں بھی حاجی صاحب کو سونپی گئی تھیں۔ نظامت کا یہ دور ختم ہوا تو ایک سال بھی انہیں فراغت نہ مل سکی اور انہیں ایوان بالا یعنی سینیٹ کا رکن بنا دیا گیا۔
اب عمران خان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد جب خزاں چلی گئی اور بہار آ ئی تو معلوم ہوا کہ اس موسم گل میں بھی نخل دارمیں سر منصور ہی کا بار آیا۔ اسلام کے علماء کی اس جمعیت میں کوئی اور شخص نہ ملا جسے یہ بھاری ذمہ داری دی جاتی۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ اس بارگر اں کو اٹھانے کے لیے ایک بار پھر حاجی صاحب ہی کے نازک کندھوں پر بوجھ ڈالا جائے گا۔
اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے اور آئین شکنی کا ارتکاب کر کے اقتدار پر قابض ہونے والے جنرل ضیاء الحق مرحوم نے سارے تقوے اور مکمل بے نیازی سے فرمایا تھا: اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہے، کانٹوں کی مالاہے۔ امام سیاست کی آن بان تو دیکھیے انہوں نے کانٹوں کی اس مالا سے کسی عالم دین اور کارکن کو تکلیف دینے کی بجائے قربانی کے لیے ایک بار پھر اپنے قریبی عزیزکوپیش کیا۔ امام الہند ابوالکلام حیات ہوتے تو کہتے سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، حساب سود و زیاں ہوتا ہے۔
پشاور کے میئر کا منصب بھی پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کی مالا تھی۔ چنانچہ کانٹوں کی یہ مالا کسی عالم دین یا کارکن کے گلے میں ڈال کر اسے تکلیف دینے کی بجائے زبیر علی نام کے ایک نوجوان کو سونپی گئی جو انہی حاجی غلام علی صاحب کے فرزند اور مولانا فضل الرحمن کے داماد کے بھائی ہیں۔
مولانا کے ایک بھائی محترم عطا الرحمن صاحب ہیں۔ وہ ایوان بالا کے رکن ہیں۔ یعنی سینیٹر ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام خیبر پختون خوا کے نائب صدر کی اضافی ذمہ داریاں بھی انہی کے نازک کندھوں پر ہیں۔ 2006 سے وہ یہ ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہیں۔ پارٹی کے داخلی انتخابات میں وہ اسی صوبے کے الیکشن کمشنر بھی رہے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مولانا عطا الرحمن صاحب سیاحت کے وفاقی وزیر بھی رہے۔ دو مرتبہ ایم این اے رہ چکے ہیں۔ 2013 میں جب مولانا فضل الرحمن نے جیتی ہوئی اضافی نشست چھوڑی تو ضمنی انتخابات میں اپنے بھائی مولانا عطا الرحمن ہی کو امیدوار بنا کر الیکشن میں کھڑا کر دیا۔
مولانا کے دوسرے بھائی کا نام لطف الرحمن ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے ایم پی اے کے ٹکٹ کی بات چلی تو یہ بھاری ذمہ داری مولانا نے ان کے نازک کاندھوں پر ڈال دی کہ دین کے کام میں تم بھی پیچھے نہ رہو۔ الیکشن جیت کر جب قائد حزب اختلاف کے تعین کا وقت آیا تو مولانا نے ایک بار پھر قربانی کی مثال قائم کر دی کہ اب کسی اور عالم یا کارکن کو کیا زحمت دینا، جب بھائی جان ایوان میں موجود ہوں۔ چنانچہ لطف الرحمن صاحب قائد حزب اختلاف بن کر اس منصب سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
مولانا کے تیسرے بھائی کا نام ضیاء الرحمن ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے بابرکت دور اقتدار میں ضیاء الرحمن صاحب پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ انجینئر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ مارچ 2005 میں وزیر اعلی کے حکم پر انہیں افغان ریفیوجیز کمیشن میں پراجیکٹ ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔ دو سال بعد اسلامی حکومت کے وزیر اعلی اکرم خان درانی نے ایک نیا نوٹی فکیشن نکالا اور یہ بھائی جان سول سرونٹ، قرار دے کر اسی ریفیو جیز کمیشن میں ایڈیشنل کمشنر لگا دیے گئے۔
اسی دوران ن لیگ کی حکومت بن گئی اور اسلام کے علماء کی جمعیت اس حکومت کا حصہ بن گئی۔ اکرم درانی اب وفاقی وزیر تھے۔ چنانچہ 2014 میں ایک نیا نوٹی فکیشن جاری ہوا اور ضیاء الرحمن صاحب کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سپرد کر دی گئیں اور انہیں ڈی سی او بنا کر خوشاب بھیج دیا گیا۔ یوں وہ مقابلے کا امتحان دیے بغیر ڈپٹی کمشنر بن بیٹھے۔ دو سال اور گزرے تو موصوف کو واپس افغان ریفیو جیز کمیشن میں بطور کمشنر یعنی گریڈ بیس کی پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا۔
وطن عزیز میں کسی سرکاری ملازم کی اس انداز سے ترقی کی یہ حیران کر دینے والی مثال ہے۔ پوچھا جانا چاہیے کہ پاکستان کی بیوروکریسی کی تاریخ میں اس طرح سے پہلے بھی کوئی ڈپٹی کمشنر بنا ہے اور کیا آئندہ بھی کوئی امکان ہے کہ اس طریقے سے کوئی ڈی سی او بن جائے۔ انہی زمانوں میں یہ بات اخبارات میں شائع ہوئی کہ مولانا اپنے صاحبزادے کو کوئی اہم منصب دلوانا چاہتے ہیں اور اس پر مجلس عمل میں تنائو ہے۔ معلوم نہیں یہ بات کس حد تک درست تھی لیکن مولانا کے صاحبزادے اسعد محمود صاحب اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور پارلیمان میں اسلامی قانون سازی کی بھاری ذمہ داری ان کے نازک کندھوں پر ہے۔
شاہدہ اختر علی صاحبہ مولانا کی سالی ہیں۔ دو دفعہ انہیں رکن قومی اسمبلی بنایا گیا۔ نیر سلطانہ صاحبہ بھی مولانا کی سالی ہیں اور انہیں بھی رکن قومی اسمبلی بنایا گیا۔ ایک محترمہ ریحانہ اسماعیل ہیں، یہ بھی مولانا کی سالی ہیں اور اس وقت ایم پی اے ہیں اور اس سے پہلے 2002 کے الیکشن کے بعد کی اسمبلی میں بھی ایم پی اے رہ چکی ہیں۔
مشافہات، کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے مولانا اس جمہوری نظام کو کفر سمجھتے ہیں، سوال یہ ہے کہیں ایسا تو نہیں اس نظام سے منسلک امکانات اور مناصب کو وہ امانت کی بجائے مال غنیمت سمجھتے ہوں؟ یعنی اس نظام کے اندر رہ کر انہیں جو مناصب اور مراعات دستیاب ہوتی ہیں ان کی حیثیت امانت اور بیت المال کی ہوتی ہے یا مال غنیمت کی؟ وہ اس سب کو ذمہ داری سمجھتے ہیں یاغنیم سے چھینا گیا مال؟
سیاست میں اب کوئی ایسا نہیں جسے دوسرے پر کوئی اخلاقی برتری ہو۔ لیکن اس کا مطلب یقینا یہ بھی نہیں ہو جانا چاہیے کہ سیاست اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز ہی ہو کر رہ جائے۔ کہیں تو اقربا پروری کے اس سلسلے کو تھم جاناچاہیے۔ کوئی جماعت توایسی ہو جو اپنے کردار سے یہ ثابت کر ے کہ وہ اخلاقیات کے باب میں سرخرو نہیں توحساس ضرور ہے۔
جمعیت علمائے اسلام جیسی جماعت بھی اگر اس پہلو سے بے نیاز ہو جائے تو یہ بہت تکلیف دہ بات ہے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جماعت کے اندر سے کوئی آواز بھی بلند نہ ہو کہ جید علماء کے ہوتے ہوئے اہم منصب اہل خانہ ہی کو کیوں دیے جا رہے ہیں۔