صدر پاکستان نے سپریم کورٹ سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت سینٹ انتخابات کے حوالے سے جو رائے مانگی تھی اس کا جواب آ چکا اور ہر دو اطراف اور اہل دانش کی جانب سے اس پر تبصرے جاری ہیں۔ ایسے معاملات میں اختلافی نوٹ بالعموم زیادہ اہم نہیں رہتے اور نظر انداز کر دیے جاتے ہیں لیکن اس رائے میں جناب جسٹس یحیی آفریدی صاحب نے جو اختلافی نوٹ لکھا ہے، وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اہل سیاست کے لیے اس میں غور و فکر کی بہت گنجائش موجود ہے اور جناب صدر بھی اگر بد مزہ نہ ہوں تو اس میں خود ان کے سیکھنے سمجھنے کو بہت کچھ موجود ہے۔
جناب جسٹس یحیی آفریدی لکھتے ہیں کہ جناب صدر محترم نے جس مسئلے پر اس ریفرنس میں رائے مانگی ہے، پورے احترام کے ساتھ، وہ آرٹیکل 186 کے تحت Question of Law کے زمرے میں آتا ہی نہیں ہے، اس لیے اس ریفرنس کا جواب دیے بغیر اسے واپس بھجوا یا جا رہا ہے۔ جناب جسٹس یحیی آفریدی اس نکتے پر جب اپنا تفصیلی موقف دیں گے، تو یقینا آئین اور سیاست کے طالب علموں کے لیے وہ ایک اہم دستاویز ہو گی اور آئینی جورسپروڈنس کی دنیا میں یہ ایک قابل قدر اضافہ بھی۔ ایک طالب علم کے طور پر میں شدت سے ان کے تفصیلی موقف کا منتظر ہوں۔ آرٹیکل 186 کیا ہے اور جسٹس یحیی آفریدی صدر محترم کو کیا نکتہ سمجھا رہے ہیں، یہ ایک دلچسپ مطالعہ ہو سکتا ہے۔
آرٹیکل 186 یہ کہتا ہے کہ اگر صدر محترم کسی موقع پر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل معاملے میں کوئی قانونی سوال کھڑا ہو گیا جس پر سپریم کورٹ سے رائے لے لی جانی چاہیے تو صدر محترم اس قانونی مسئلے کو سپریم کورٹ کو بھیج سکتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں لکھا ہے کہ جب ایسا قانونی سوال سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا تو سپریم کورٹ اس پر غور کرے گی اور صدر کو اپنی رائے لکھ بھیجے گی۔
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ یہاں لفظ May نہیں بلکہ Shall لکھا گیا ہے۔ قانون کی دنیا میں اگر May کا لفظ ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کام کرنے یا نہ کرنے کا آپشن موجود ہے۔ لیکن جہاں Shall آ جائے وہاں کام کرنے کی گویا پابندی ہو جاتی ہے۔ اب یہاں لکھا ہے کہ The Supreme Court shall.........۔ یعنی وہ لازمی طور پر اس پر غور کرے گی اور اس کا جواب دے گی۔ لفظ Shall کے باوجود جسٹس یحیی آفریدی اس ریفرنس کا جواب دیے بغیر اسے واپس بھیجوا رہے ہیں اور لکھ رہے کہ Returned unanswered تو یہ معمولی بات نہیں۔ سیاست کے وقتی اودھم میں بھلے یہ اختلافی نوٹ زیادہ زیر بحث نہ آئے لیکن ایک طالب علم کے طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ا س مختصر سے پیرے میں ایک جہان معنی سمو دیا گیا ہے۔
صدر پاکستان نے ریفرنس بھیجا۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کون سی الجھن در پیش تھی کہ معزز عدالت سے رائے طلب کرنے کی کوشش فرمائی؟ اٹارنی جنرل فرماتے ہیں کہ یہ ریفرنس آرٹیکل 226 کی تشریح کے لیے بھیجا گیا۔ اب دوسرا سوال گویا یہ ہوا کہ آرٹیکل 226 میں ایسی کون سی الجھن تھی جو جناب صدر اور اٹارنی جنرل مل جل کر نہیں سلجھا سکے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سے رائے طلب کرنا پڑی؟
ایک فقرے پر مشتمل سادہ سا یہ آرٹیکل ہے جس میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے انتخاب کے علاوہ ہر انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہو گا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہاں Shall be by secret ballot کے لفظ استعمال کیے گئے ہیں۔ Shall اور May کا فرق اوپر بیان کر دیا گیا ہے۔ یہاں لفظ May ہوتا تو شاید صدر محترم کسی الجھن کا شکار ہو جاتے لیکن جب Shall کا لفظ استعمال ہو گیا تو گویا آئین نے کسی شک و شبہے کے بغیر وضاحت کر دی کہ الیکشن لازمی طور پر خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہو گا۔ اس قدر صریح وضاحت کے باوجود صدر محترم کو کیوں رائے لینے کی ضرورت محسوس ہوئی؟ اس طرح کے معاملات میں عدالت کو وقت ضائع کرنے پر بسا اوقات فریقین اور وکلاء تک کو جرمانے ہو جاتے ہیں۔
جناب جسٹس یحیی آفریدی کے اختلافی نوٹ میں یہی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جناب صدر، جس قانونی مسئلے پر آپ نے رائے طلب کی، آئین کے تحت وہ قانونی مسئلہ Question of law ہے ہی نہیں۔ کیونکہ معاملہ بالکل واضح اور عیاں ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے علاوہ ہر انتخاب میں ووٹنگ خفیہ ہو گی۔ اس واضح مسئلے پر آپ رائے مانگیں گے تو آپ کا ریفرنس اس قابل نہیں کہ اس کا جواب دیا جائے۔۔
پاکستان میں آئین کے سر پر ہمیشہ نظریہ ضرورت کی تلوار لٹکتی رہی ہے اور آئین کی من پسند تشریحات کر لی جاتی ہیں۔ اس لیے آئین کے باب میں پختہ اور قابل تحسین جورسپروڈنس تشکیل نہیں پا سکی۔ موجودہ ریفرنس بھی صدر محترم کی ایسی ہی کسی خواہش کا ایک مظہر ہو سکتا ہے کہ آئین میں تو راستہ نہیں مل رہا شاید ریفرنس کی صورت میں مل جائے۔ ریفرنس پر آنے والی رائے اگر چہ قابل بحث ہے کہ خفیہ بیلٹنگ کا ووٹ اگر ہمیشہ خفیہ نہ رہے تو کیا اسے خفیہ بیلیٹنگ کہا جا سکتا ہے تا ہم سر دست موضوع اختلافی نوٹ کا ہے جس نے آرٹیکل 186 کی ایک جورسپروڈنس تشکیل دے دی ہے۔ صدر محترم کو ایسا ہی جواب ملنا چاہیے تھا۔