کلکتہ ہائی کورٹ کے شروع کے دنوں میں ایک انگریز جج تھے۔ انہیں بہت طویل فیصلے لکھنے کی عادت تھی۔ فیصلہ وہ انگریزی ہی میں لکھتے تھے۔ بھلے آگے نو آبادیاتی رعایا میں سے کسی کو سمجھ آئے یا نہ آ ئے۔ ان کے سامنے قتل کا ایک مقدمہ آیا اور انہوں نے ملزم کو سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔ اس میں وہ جرم کی نوعیت اور اس پر قانون کے اطلاق تک ہی محدود نہ رہے بلکہ انہوں نے مجرم کے والدین کے غم ناک احساسات کا بھی تفصیلی ذکر فرمایا اور یہی نہیں بلکہ اس پر بھی روشنی ڈالی کہ چونکہ ملزم بغیر توبہ کے مر جائے گا تو اس کی عاقبت بھی خراب ہوگی۔ انٹرنیٹ کا تو وہ زمانہ نہیں تھاکہ وہ وہاں سے خلیل جبران کے فرمودات کو اپنے فیصلے کا حصہ بناتے تاہم انہوں نے خاصا طویل فیصلہ لکھا۔
فیصلہ لکھا جا چکا تو جج صاحب نے عدالت کے ترجمان سے کہا کہ قیدی کے لیے اس فیصلے کا ترجمہ کر دے اور ترجمہ مختصر ہو۔ ترجمان نے اب فیصلے کا ایسا ترجمہ کرنا تھا جس میں قانونی اور اخلاقی ہر دو پہلو نمایاں ہوں، جس طرح وہ اصل فیصلے میں نمایاں تھے۔ چنانچہ اس عدالتی اہلکار نے اس طویل فیصلے کا ترجمہ صرف چھ لفظوں میں کرکے جج صاحب کے آ گے رکھ دیا۔ لکھا تھا: جائو بدذات، پھانسی کا حکم ہوا۔
جارج اے گریرسن لکھتے ہیں کہ جج اتنے طویل فیصلے کا اتنا مختصر اور برمحل ترجمہ دیکھ کر ششدر رہ گیا اور مقامی زبان کی تحسین کرتا رہا۔ اس واقعے کا ذکر ناصر عباس نیر صاحب کی کتاب مابعد نوآبادیات ـمیں پڑھا تو سوچتا رہ گیا کہ ہمارے ہاں یہ اختصار رواج کیوں نہیں پا سکا۔
جناب ظفر سید نے آج ہی اپنی ایک پرانی تحریر فیس بک پر شیئر کی ہے، جس میں دنیا میں لکھی گئی، مختصر کہانیوں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کہانی ہے: دنیا کا آخری آدمی کمرے میں بیٹھا تھا۔۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ ظفر سید لکھتے ہیں : "مختصر ترین کہانیوں کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ کے مشہور میگزین وائرڈ، نے نومبر 2006 کے شمارے میں ایک دلچسپ تجربہ کیا۔ میگزین کے مدیر نے امریکہ کے چوٹی کے ادیبوں کو صرف چھ الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی۔ میگزین کے پاس بطور نمونہ نوبل انعام یافتہ ادیب ارنسٹ ہیمنگوے کی مختصر کہانی موجود تھی:
بچگانہ جوتے برائے فروخت، کبھی استعمال نہیں ہوئے۔
For sale: baby shoes, never worn.
انگریزی میں یہ کہانی صرف چھ الفاظ پر مشتمل ہے، جس میں ادیب نے پوری داستان سمو دی ہے: جوتے کون بیچ رہا ہے؟ کسی بچے کے والدین۔ شاید بچہ پیدا ہوتے ہی مر گیا تھا، یا مرا ہوا ہی پیدا ہوا تھا۔ والدین نے بڑے ارمانوں سے اس کے لیے جوتے خریدے ہوں گے لیکن اب وہ اپنی مالی حالات کے ہاتھوں اتنے مجبور ہو گئے کہ مرے ہوئے بچے کے جوتے بیچنے کی نوبت گئی۔ غربت کا عفریت، معاشی ناہمواری، وسائل کی نامناسب تقسیم، قدرت کے سامنے انسان کی بیبسی اور ذاتی المیے کیے باوجود زندگی کی گاڑی کا چلتے رہنا۔۔ سب کچھ اس کہانی میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیمنگوے نے اس کہانی کو اپنے کریئر کی اعلیٰ ترین کہانی قرار دیا تھا"۔
جناب ظفر سید نے وائرڈ میگزین کے شمارے سے چند منتخب کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ یہ کہانیاں کچھ یوں ہیں:
1۔ اس کی حسرت تھی، مل گیا، لعنت۔
2۔ میں تمہارا مستقبل ہوں، مت رو بچے۔
3۔ میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا۔ خدا حافظ۔
4۔ دن برباد، زندگی برباد، ذرا میٹھا بڑھانا۔
5۔ کتبہ: بے وقوف انسان، زمین سے بھاگ نہیں سکا۔
6۔ بہت مہنگا ہے انسان رہنا۔
7۔ بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی۔
8۔ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا۔
9۔ ٹائم مشین مستقبل میں پہنچ گئی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔
10۔ جھوٹ پکڑنے والی عینک کی ایجاد۔ انسانیت دھڑام۔
11۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھ پر گولی نہیں چلائے گی۔
12۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ تفصیل 11 بجے۔
13۔ اس سے شادی مت کرو۔ گھر خرید لو۔
14۔ کیا اتنا کافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا۔
وقت بدل رہا ہے اورا س کے تقاضے بھی مختلف ہیں، کراچی سے خیبر تک لایعنی تحریر لکھ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تحریر کا حسن اس کے متن اور اسلوب میں ہوتا ہے اس کے وزن یا طوالت سے نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب اشاعت کے لیے پبلشر کو بھیجی، جواب آیا، اس کے صفحات کچھ کم ہیں، ذرا ان میں اضافہ کر دیجیے۔ یعنی پبلشر کے نزدیک کتاب کا معیار اس کا متن نہیں، صفحات کی تعداد ہے۔ مولانا ظفر علی خان سے منسوب ہے کہ کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے اتنی لمبی تحریر کیوں لکھ ماری۔ انہوں نے جواب دیا کہ مختصر لکھنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔
تحریر کسی بھی قسم ہو، قانونی ہو یا ادبی، اس کا حسن یہ نہیں کہ ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا وزن ساڑھے چھ کلو گرام ہے جس کا نصف سوا تین کلو گرام ہوتے ہیں، نہ ہی اس کی خوبی یہ ہے کہ انٹرنیٹ سے اس میں کتنے شاعروں اور مفکرین کے کتنے اقتباسات اٹھا کر نقل کیے گئے بلکہ تحریر کا حسن اس کا متن ہے۔ وہی شیکسپیئر والی بات کہ Brevity is the soul of wit۔ اختصار کا معیار، ظاہر ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے جج صاحب کے ترجمان والا نہیں ہونا چاہیے کہ جائو، بد ذات، پھانسی کا حکم ہوا، لیکن یہ کلکتہ ہائیکورٹ کے جج صاحب والا معاملہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ فیصلہ لکھنے بیٹھو تو میسور سے مانسہرہ تک لکھتے ہی چلے جائو۔ اعتدال کا راستہ ہی بہترین راستہ ہے اور اب تو یہ احساس شدت سے پیدا ہو چکا ہے کہ ہمارے لکھاری سے لے کر ہمارے سرکاری عہدیداران تک، سب کو اپنی بات مختصر انداز سے کہنے کا قریبہ سیکھ لینا چاہیے۔
اور اگر یہ بات اپنی ہی زبان میں لکھ اور کہہ لی جائے تو یقینا اس کی تاثیر میں اضافہ ہو جائے گا۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے انگریز جج صاحب ویسے اتنا طویل انگریزی فیصلہ کس کے لیے لکھتے تھے؟ یہاں کون تھا جو ان کی علمی درفنظنیاں پڑھتا اور سمجھتا۔ ساڑھے تین سو صفحات کے فیصلے کے بعد اگر اس کا ترجمہ یہی کروانا پڑ جائے کہ جائو بد ذات پھانسی کا حکم ہوا تو بہتر نہ ہوتاکہ کلکتہ ہائی کورٹ کے انگریز جج صاحب ایک دو صفحوں کا فیصلہ لکھ دیتے، اور وہ بھی مقامی زبان میں۔ کسی کوسمجھ تو آتی، کسی کے پلے تو پڑتا۔