اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ پرانے وقتوں میں لوگ یہ سوال اونٹ سے پوچھا کرتے تھے۔ کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں الیکشن کمیشن کی شاندار کارکردگی کے بعد، کوئی چاہے تو یہی سوال الیکشن کمیشن سے بھی پوچھ سکتا ہے۔
سوالات بہت سارے ہیں مگر ان سب کا حاصل پھر ایک ہی سوال ہے: کیا الیکشن کمیشن آئندہ عام انتخابات بھی اسی طرح کرائے گا جیسے اس نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کرائے؟
اگر اس سول کا جواب ہاں میں ہے تو عالی جاہ، آپ سب کا اقبال بلند ہو، اس تماشے کے لیے غریب قوم کے اربوں روپے برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ٹاس کر لیجیے، پرچیاں ڈال لیجیے یا حکم شاہی صادر فرما دیجیے کہ فلاں جیت گیا اور فلاں ہار گیا۔ کم از کم اس سے ملکی معیشت کو تو سہارا ملے گا۔ اس کے بعد یہ الیکشن کمیشن کی اپنی میانہ روی ہوگی کہ وہ مرکزی دفتر کے بعد یہ لکھ کر آویزاں کرتا ہے یا نہیں کہ آئیے دیکھیے ہم فروغ معیشت کے لیے کیسے کوشاں ہیں۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی جو شکایات ہیں وہ تو سب کے سامنے ہیں، حیران کن رویہ مگر الیکشن کمشنر سندھ کا تھا۔ ٹی وی پر جلوہ افروز تھے جب میں نے ان کا موقف سنا۔ موصوف نے جلال شاہی سے دھاندلی کے امکان کی نفی فرماتے ہوئے انتخابات کو کلین چٹ عطا فرما دی۔ ایک سانس میں فرما رہے تھے کہ دھاندلی کے الزامات درست نہیں ہیں اور پھر دوسرے سانس میں فرما رہے تھے کہ عملے کے کسی آدمی نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ دھاندلی کے الزامات کو غلط قرار دینے سے پہلے کیا موصوف نے ان الزامات کو پرکھ لیا تھا اور صداقت جانچ لی تھی یا ایک معمول کے مطابق کارروائی ڈال دی کہ کوئی دھندلی نہیں ہوئی۔
کارٹل کلچر نے ہمارا سماج ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ہمارے ادارے فورا اپنے دھڑے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یعنی عوام میں سے کوئی دھاندلی کا الزام لگا دے تو الیکشن کمیشن کیا فورا ایک پوزیشن لے لے گا کہ نہیں جی ایسا کچھ نہیں ہوا؟ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک فریق کی ہے یا ثالث کی؟ اگر وہ ثالث ہے تواس کا رویہ فریق جیسا کیوں ہو جاتا ہے؟
شام کے پانچ بج چکے ہیں۔ جان کی امان ملے تو کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ نتائج میں اتنی تاخیر کیوں ہوتی ہے؟ نتائج میں تاخیر سارے عمل کی شفافیت کو دھندلا دیتی ہے۔ اس تاخیر کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک نا اہلی دوسری بد نیتی۔ الیکشن کمیشن رہنمائی فرمائے گا کہ کراچی کے معاملے میں یہ نا اہلی قرار ی جائے یا بد نیتی؟
الیکشن کمشنر سندھ فرما رہے تھے کہ انتخابی عمل اور عملے کی نگرانی کے لیے انہوں نے سخت نظام بنا رکھا ہے۔ سوال یہ وہ سخت نظام کیا تھا؟ کیا اس سخت نظام کی کوئی تفصیل عوام سے بھی شیئر کی جا سکتی ہے تا کہ معلوم تو ہو وہ کتنا سخت نظام تھا جس کے ہوتے ہوئے امیدوار ساری رات دہائی دیتے رہے کہ فلاں فارم نہیں دیا جا رہا؟ یہ کیسا سخت نظام تھا کہ حافظ نعیم الرحمن شام سے ہی تفصیل کے ساتھ پوری وضاحت سے بتا رہے تھے کہ کہاں کہاں کس کس طرح دھاندلی کی جا رہی ہے لیکن یہ سخت نظام ان کی داد رسی نہ کر سکا؟
اہلیت کا عالم یہ ہے کہ انتخابی نتائج تو ابھی تک مرتب نہیں ہو سکے لیکن بڑے مزے اور شان بے نیازی کے ساتھ دعوی کر دیا گیا کہ دھاندلی کی شکایات بے بنیاد ہیں؟ یہ کیسا دست ہنر ہے جو الیکشن کے نتائج تو مرتب نہیں کر پایا لیکن اس نے نتائج فکرمرتب کر لیے ہیں اور تحقیق فرما لی ہے کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی؟
انتخابی امیدواران نے نتائج میں تاخیر کی شکایت کی تو اس پر اپنی نا اہلی، سستی یا بد انتظامی (جو بھی کہہ لیں) کا اعتراف کرنے یا معذرت کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن کا موقف آیا کہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ یعنی جو لوگ ساری عمر الیکشن میں حصہ لیتے رہے اور اس کی ساری جزئیات سے آگاہ ہیں ان کا علم ناقص ہے اور الیکشن کمشنر صاحب جنہوں نے زندگی میں شاید کبھی نہ الیکشن لڑا ہو نہ اس کی جزئیات کو سمجھتے ہوں، وہ اب ان امیدواران کو سمجھا رہے ہیں کہ عزیز ہم وطنو!یہ جو الیکشن ہوتا ہے یہ بڑا پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ سوال وہی ہے کہ یہ عمل کتنا پیچیدہ ہوتا ہے؟
لوگ دہائی دے رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنا کام نہیں کر سکااور الیکشن کمشنر سندھ نے خود کو خود ہی یہ کہہ کر سرخرو کر دیاکہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کی ہے۔ مناسب یا موزوں نہیں کہا، حتی کہ اچھا بھی نہیں کہا۔ احسن قرار دیا۔ یعنی شاندار۔ تو کیا یہ شاندار کارکردی تھی؟ اکیلے تشریف لانا اور میڈیا کے سامنے خطبہ دے کر چلے جانا اور بات ہے، سوال یہ ہے کیا الیکشن کمشنر سندھ حافظ نعیم الرحمن کو بلا کر ایک مشترکہ پریس بریفنگ کا اہتمام کر سکتے ہیں تا کہ معلوم ہو ان کے اعتراضات کیا ہیں اور الیکشن کمیشن کا جواب کیا ہے؟
خوف ناک منظر نامہ تو یہ ہے کہ آئندہ انتخابات بھی اسی الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں۔ اگر اہلیت اور فعالیت کا عالم یہی رہا تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ اگلے عام انتخابات کا نتیجہ بھی ایک خوفناک بحران کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ یہاں سارا جھگڑا ہی الیکشن کی عدم شفافیت کا ہوتاہے اور اگلے عام انتخابات بھی اگر شفاف نہ ہوئے اور یہ شفافیت نظر نہ آئی تو اس کے نتیجے میں سیاسی بحران اٹھ کھڑا ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے پاس نہ عملہ ہے نہ اس کی تربیت۔ الیکشن سر پر آتے ہیں تو آدھی ادھوری تربیت کے ساتھ اساتذہ کو جبری طور پر الیکشن ڈیوٹی کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ قوانین فرسودہ ہیں۔ خود الیکشن کمیشن عملاغیر فعال ہے۔ اس کی سنتا ہی کوئی نہیں ہے۔ اور اگر وہ کوئی فیصلہ کر ہی دے تواس پر سٹے آجاتا ہے۔ کہنے کو وہ ایک آئینی ادارہ ہے لیکن عملا اس کی افادیت محدود تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
روایت ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے صحافیوں سے پوچھا ریفرنڈم آزادانہ اور منصفانہ ہی تھا نا؟ عبد االقادر حسن مرحوم نے جواب دیا: صبح نو بجے تک منصفانہ تھا اس کے بعد آزادانہ تھا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات بتا رہے ہیں کہ عام انتخابات بھی خاصے آزادانہ ہوں گے۔