دینی مدارس کے طلباء کی عمومی قوت ارتکاز پر لکھے گئے گئے کالم پر غیر معمولی رد عمل آیا۔ اتفاق کرنے والے بھی بہت تھے اور اختلاف کرنے والے بھی کم نہ تھے۔ مناسب ہوگا احباب کی خدمت میں چند مزید گزارشات پیش کی جائیں تا کہ ان تمام سوالات کا جواب دے دیا جائے جو اس کالم کے بعد اٹھائے گئے۔
کچھ دوستوں نے اس بات سے اختلاف کیا کہ مدارس کے طلباء کا کتاب سے زیادہ تعلق ہے اور اس مطالعے کی وجہ سے ان میں ارتکاز کی قوت زیادہ ہے۔ اس کا جواب تو بہت سادہ ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ تحریر میرے اور میرے حلقہ احباب کے مشاہدے کی بنیاد پر لکھی گئی تھی۔ کسی کے مشاہدے سے اتفاق کرنا لازمی نہیں ہوتا۔ کسی اور کا مشاہدہ اگر اس سے مختلف ہے تو اسے اپنی بات کہنے کا حق ہے، بالکل ایسے ہی جیسے میں نے اپنا مشاہدہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔ کسی کی رائے، آفاقی صداقت نہیں ہوتی۔ مختلف آراء مل کر ایک عمومی تاثر کو جنم دیتی ہیں۔ جو میری رائے تھی وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دی۔ اس میں غلطی اور صحت ہر دو کا امکان موجود ہے۔
کچھ دوستوں نے پوچھا کہ کیا میں اپنے بچوں کو مدرسے میں بھیجنا پسند کروں گا؟ اس کا جواب بھی بہت سادہ ہے: نہیں۔ میری خواہش ہوگی کہ میرے بچے جدید علوم حاصل کریں اور یہ کام مدرسے میں ممکن نہیں۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب میں مدرسہ کے نظام میں کسی خوبی کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دوں؟ میں تو اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں اور کالجز میں بھیجنا بھی پسند نہ کروں؟ تو کیا ان سرکاری اداروں کی بھی اب مکمل نفی کر دی جائے؟ یہ رائے مدرسے کے طلباء کی ایک خوبی سے متعلق تھی۔ اس میں جدید تعلیمی اداروں کی نفی نہ کی گئی تھی نہ مقصود تھی۔ جدید تعلیمی اداروں کی افادیت سے انکار کوئی کیسے کر سکتا ہے؟ لیکن اگر مدارس کے نظام میں ایک خوبی سامنے آ رہی ہے تو اس کا انکار کیسے کیا جائے اورکیوں کیا جائے؟
ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر مدارس کے طلباء میں ارتکاز اور سنجیدگی زیادہ ہے تو یہ ہمیں جمعہ کے خطبات میں کیوں نظر نہیں آتی؟ یہ اہم سوال ہے اور اہل مدرسہ کو اس کا جواب دینا چاہیے اور اس عمومی تاثر کو سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے۔ لیکن میرا سوال ایک اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بحران صرف اہل مدرسہ کے خطبوں میں ہے یا آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ سیاسی قیادت کے خطبات بھی اسی بحران سے دوچار ہیں؟ اگر بحران ہر دو کے دامن سے لپٹا ہے تو اس کی وجوہات یقینا کچھ اور ہوں گی، انہیں تلاش کرنا چاہیے۔
ایک صاحب نے افغان جہاد اور اس کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں مدارس کے کردار پر سوال اٹھایا۔ اس سوال کے بہت سے جواب ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ خلط مبحث تھا۔ کالم میں طلباء کے فکری رجحان کی بات کی گئی تھی ان کی عسکری تاریخ بیان نہیں کی گئی تھی۔ کیا اس ایک خوبی کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہر بات کو درست سمجھ لیا جائے۔ اور کیا ان کی کسی ایک خامی کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کسی خیر کے کسی امکان کو ہی تسلیم نہ کیا جائے؟ خلط مبحث سے بچنا چاہئے لیکن سوال کرنے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ افغان جہاد اور اس کے بعد کے معاملات میں کیا سارا کام مدارس ہی کا تھا یا قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی کچھ فیصلے ہوئے تھے؟ ویسے بھی اعدوشمار کے مطابق القاعدہ سے جدید تعلیمی اداروں کے نوجوان زیادہ منسلک تھے بہ نسبت مدارس کے۔
مدارس کی ڈگریوں کی عملی زندگی میں مادی افادیت نہ ہونے کا سوال بھی اٹھایا گیا۔ اس کا جواب وہی ہے کہ کالم میں کہاں کہا گیا اس کی مادی افادیت بہت زیادہ ہے؟ یعنی یہ سوال بھی خلط مبحث ہے۔ کالم میں صرف یہ بات کی گئی تھی کہ وہاں کے طلباء کا کتاب سے تعلق زیادہ ہے اور وہ فوکسڈ ہیں۔ اس سے زیادہ جب کہا نہیں گیا تو سمجھا کیسے گیا؟ کیا یہ رویہ بھی انتہا پسندی کہا جا سکتا ہے؟ مدارس میں اصلاحات کی سب سے زیادہ ضرورت ہی یہیں ہے کہ وہ ایسی ڈگریاں بھی دیں جو عملی زندگی میں کام آئیں۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اور ویسے بھی مدارس کی ڈگریوں کی عملی افادیت ہی سوال نہیں، سوال تو ایف اے، بی اے، اور ایم سے جیسی ڈگریوں کی افادیت پر بھی اٹھ رہے ہیں۔ یہ جو لشکر ایف اے، بی اے، ایم اے کر کے سامنے آ رہے ہیں ان کی عملی زندگی میں کیا افادیت ہے؟ غیر پیشہ ورانہ ڈگریاں کاغذات کے انبار کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی اگر اس پہلو پر بھی بات کی جائے تو پھر اصول کا اطلاق سب پر ایک جیسا ہو۔
میں نے صرف اتنی سی بات لکھی تھی کہ مدارس کے نوجوان زیادہ سنجیدہ کیوں ہیں اور جواب یہ تھا کہ شاید کتاب سے جڑے ہونے کی وجہ سے۔ یعنی بنیادی موضوع کتاب سے لگائو تھا اور ایک مشاہدے کو بطور دلیل پیش کیا۔ اس بنیادی تھیسز کو جدید ذہن نے بالکل نظر انداز کیا اور ایک نسبتا غیر اہم نکتے سے اپنے مفروضے نکال کر سوالات کھڑے کر دیے۔
ہم سب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سماج میں تنوع نظام فطرت ہے۔ خامی بھی ہر جگہ ہو سکتی ہے اور خوبی بھی۔ ہمیں اگر کسی سے اختلاف ہے تو کیا اب یہ لازم ہے کہ اس میں کسی خوبی کے امکان کو بھی تسلیم نہ کیا جائے؟ اور کیا کسی ایک کی کسی ایک خوبی کو تسلیم کرنے کا یہ مطلب یہ کہ اس کی ہر شے کو خوبی قرارا دے دیا یا ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔
لیکن ہمارے مزاج کی عمومی انتہا پسندی کوئے یار اور سوئے دار کے بیچ کسی مقام کی قائل نہیں۔ بلاشبہ جدید تعلیم وقت کی ضرورت ہے۔ مسلم معاشروں کا سب سے بڑا بحران ہی یہی ہے کہ وہ علم و تحقیق کی دنیا میں پیچھے رہ گئے۔ کہاں وہ وقت کہ مسلم دنیا میں قابل اور بڑے بڑے سائنسدان پیدا ہوتے تھے اور کہاں یہ وقت کہ فکری افلاس نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے۔ جدید تعلیم کے بغیر ترقی تو دور کی بات، بقاء بھی ممکن نہیں۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ روایتی اداروں کے طلباء کے ہاں کوئی اچھی چیز محسوس کی جائے تو اس کا انکار ہی کر دیا جائے۔
چیزوں کی ترتیب درست رہنی چاہیے۔ اختلاف اچھی چیز ہے مگر اختلاف متن پر ہونا چاہیے، مفروضے پر نہیں۔ یہ سارے سوالات اصل میں میرے اس نکتے کی تائید کرتے ہیں جو گزشتہ کالم میں بیان کیا گیا۔ بس اس میں خلط مبحث کا اضافہ کر لیجیے۔
ایک اہم نکتہ بیرسٹر عمر گیلانی اور محترمہ تزئین حسن صاحبہ نے یہ اٹھایا کہ (اگر مدارس کے طلباء کی قوت ارتکاز والی بات درست ہے تو) کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ انہیں اپنی زبان اردو میں تعلیم دی جاتی ہے؟ اس میں کیا شک ہے کہ یہ انتہائی اہم سوال ہے۔