پہلے ریاست وجود میں آتی ہے۔ پھر وہ اپنا ایک آئین بناتی ہے۔ اس آئین کی روشنی میں پھر وہ اپنے لیے قوانین تیار کرتی ہے۔ یہ قوانین پھر شہریوں پر لاگو کر دیے جاتے ہیں اور یوں نظام چلتا ہے۔ لیکن ہم نے کیا کیا؟
پاکستان 1947 میں قائم ہوا۔ پہلا آئین 1956 میں بنا لیکن قوانین 1860 کے ہیں۔ پورا فوجداری نظام 1860 کی دہائی کا ہے۔ ہم نے صرف یہ کیا کہ 1860 کے تعزیرات ہند کو تعزیرات پاکستان کا نام دے دیا۔ یعنی ہمارا فوجداری قانون ہمارا ملک بننے سے 87 سال پہلے کا ہے۔ ہمارا مجموعہ ضابطہ دیوانی پاکستان بننے سے 41 سال پہلے کا ہے۔ یہ ایک دو قوانین کا قصہ نہیں، درجنوں قوانین دور غلامی کے ہیں لیکن ہم لکیر کے فقیروں کی طرح ان پر عمل کیے جا رہے ہیں۔
آئین پاکستان اپنے شہریوں کو چند ضمانتیں دیتا ہے۔ آئین کہتا ہے کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف ہو گا تو کالعدم ہو جائے گا، آئین نے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق دے رکھے ہیں اور قرار دے رکھا ہے کہ اگر کوئی قانون ان بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہو گا تو کالعدم ہو جائے گا۔ لیکن ایسے درجنوں قوانین ہیں جو اسلام سے بھی متصادم ہیں اور بنیادی انسانی حقوق سے بھی لیکن سب آنکھیں بند کر کے ان پر عمل کیے جا رہے ہیں۔ نہ پارلیمان کے پاس فرصت ہے ان کا جائزہ لے نہ وکیل ان پر سوال اٹھاتے ہیں اور نہ ہی عدالتیں ان کا جائزہ لیتی ہیں۔
آئین کو آج تک نصاب میں شامل نہیں کیا گیا کہ کہیں لوگ اسے پڑھ کر یہ جان نہ جائیں کہ دستور کی روشنی میں ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ کہیں وہ باشعور نہ ہو جائیں اور کہیں وہ ان حقوق کا مطالبہ نہ کرنا شروع کر دیں۔ کہیں وہ دور غلامی کے قوانین پر سوال نہ اٹھانا شروع کر دیں۔
قائد اعظم نے ایک دن بھی ضائع نہیں ہونے دیا اور پاکستان بنتے ہی آئین سازی پر کام شروع کروا دیا۔ انہیں معلوم تھا اپنا آئین اور اپنے قوانین کتنے ضروری ہیں۔ لیکن قائد اعظم علیل ہوئے اور اللہ کے حضور جا پہنچے۔ قائد علیل تھے لیکن سٹیٹ بنک کو باقاعدہ ایک تقریب میں معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کا حکم دیا۔ (اس حکم کے ساتھ ہم نے یہ کیا کہ سود کے خلاف ایک مقدمے کا فیصلے ہوتے ہوتے تیس سال لگ جاتے ہیں اور فیصلہ ہو جائے تو اسلامی نظریاتی کونسل کو بنکوں کی منتیں کرنا پڑتی ہیں کہ ازرہ کرم اس فیصلے کے خلاف اپیل نہ کر دیجیے گا)۔
قائد زندہ رہ جاتے تو شاید آئین بھی جلد بن جاتا اور دور غلامی کے قوانین کو بھی بدل دیا جاتا لیکن سڑک کے کنارے بیمار قائد اعظم کی ایمبولینس کا پٹرول ختم ہو جاتا ہے، گاڑی کا اے سی بند ہو جاتا ہے اور چند گھنٹے بعد ان کا انتقال ہو جاتا ہے۔ آج بھی یہ سوچ کر دل ڈوب جاتا ہے کہ کیا یہ صرف اتفاق ہی تھا؟ کیا یہ ممکن تھا کہ گورنر جنرل اور بابائے قوم موت و حیات کی کشمکش میں ہوں اور انہیں ائر پورٹ سے لینے ایک ایسی ایمبولینس نھیجی جائے جس میں پٹرول ہی نہ ہو؟
قائد اعظم نے 1946 کے صوبائی انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ یہی کامیابی قیام پاکستان کا نقش اول بنی۔ اسی انتخابات سے بنی صوبائی اسمبلیوں نے دستور ساز اسمبلی بنائی۔ یہی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی تھی۔ قائد اعظم اس کے پہلے صدر تھے۔ اسی اسمبلی نے آئین بنانا تھا۔ لیکن قائد کی رحلت ایک بیوروکریٹ گورنر جنرل غلام محمد نے قائد اعظم کی اس اسمبلی کو ہی توڑ دیا۔ اور اپنی مرضی سے لوگ منتخب کر دیے کہ یہ اب نئی اسمبلی ہے اور یہ اب آئین بنائے گی۔ ڈر کیا تھا؟ ڈر یہی تھا کہ پاکستان کا اپنا آئین بن گیا تو بیوروکریٹ بابو کی من مانیاں ختم ہو جائیں گی اور ملک میں ایک ضابطہ آ جائے گا۔ بابو لوگ دور غلامی کی بیوروکریسی کے فرعون تھے۔ قانون کے نفاذ سے ان کی جان جاتی تھی۔ آئین سے انہیں ڈر لگتا تھا۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کسی ملک کی حکومت اپنی عدالت سے کہے کہ دیکھیے فیصلہ ضرور کیجیے لیکن فیصلہ کرتے وقت یہ بات یاد رکھیے کہ ہمارا ملک ابھی آزاد ملک نہیں ہے، یہ غلام ملک ہے؟ اسمبلی توڑنے کے خلاف جب اس کے سپیکر مولوی تمیز الدین عدالت گئے تو بیوروکریٹ گورنر جنرل غلام محمد نے عدالت میں کیا موقف اختیار کیا؟ اس نے ایک ایسا برطانوی وکیل کیا جس کو قومی خزانے سے اتنی فیس دی گئی جو اس وقت کے چیف جسٹس کی تنخواہ سے سات گنا زیادہ تھی۔ اس نے عدالت میں کہا کہ پاکستان تو ابھی مکمل طور پر آزاد ملک نہیں ہے۔ اور گورنر جنرل چونکہ برطانیہ کا نمائندہ ہے اس لیے وہ جب چاہے اسمبلی توڑ سکتا ہے۔ بادشاہ کے نمائندے کے کسی حکم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
آج ہمیں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ جسٹس منیر نے کیسے نظریہ ضرورت کا سہارالے کر ایک ایسا فیصلہ کیا جس کے تباہ کن اثرات آج بھی باقی ہیں، کیلسن کے نظریہ قانون اور اس کے Grund Norm پر بھی دو حرف بھیجے جاتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ گورنر جنرل نے کیسی شرمناک دلیل کا سہارا لیا۔ نہ کوئی یہ بتاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے گورر جنرل کی اسی دلیل کو قبول کر لیا کہ جی ہاں پاکستان ابھی مکمل آزاد ملک نہیں ہے۔ اس لیے گورنر جنرل نے جو کیا ہے درست کیا ہے۔
یہ فیصلہ سامنے آیا تو جسٹس کارنیلیس تڑپ اٹھے۔ انہوں نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ یہ فیصلہ پاکستان کی توہین ہے، یہ پاکستان کی آزادی کی توہین ہے، یہ پاکستان کے عوام کی توہین ہے۔ جسٹسس کارنیلیس نے کہا کہ پاکستان ہر لحاظ سے ایک آزاد ملک ہے۔ اس کی دستور ساز اسمبلی فیصلہ سازی میں آزاد ہے۔ لیکن بہر حال فیصلہ آ چکا تھا کہ پاکستان مکمل آزاد ملک نہیں ہے۔ کاش یہ فیصلہ اور جسٹس کارنیلیس کا اختلافی نوٹ نصاب کا حصہ ہوتا اور ہماری نسل کو معلوم ہوتا اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے گورنر جنرل کا یہ موقف جسے جسٹس منیر نے قبول کر لیا، خود ملکہ برطانیہ نے قبول کرنے سے نکار کر دیا۔ جب اسی گورنر جنرل نے حسین شہید سہروردی کو وزارت عظمی سے فارغ کیا تو انہوں نے ملکہ الزبتھ سے مطالبہ کیا کہ اپنے نمائندے گورنر جنرل کے فیصلے کو واپس لینے کا حکم جاری کریں۔ ملکہ الزبتھ نے کہا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور میں اس کی آئینی سربراہ اس وقت ہوں جب تک وہ اپنا آئین نہیں بنا لیتا لیکن یہ علامتی منصب ہے۔
میں پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ یعنی پاکستان کا بیوروکریٹ گورنر جنرل اور جسٹس منیر اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان مکمل آزاد ملک نہیں اور ملکہ برطانیہ کہہ رہی تھیں کہ پاکستان مکمل طور پر آزاد ملک ہے۔ (بیوروکریسی کے اور غلامی کے قوانین سے طے پانی والی نفسیات کو سمجھنے کے لیے اس سے بہتر مثال شاید ہی کوئی اور ہو)۔
خرابی دور غلامی کے قوانین اور خود کو وائسرائے سمجھنے والی بیوروکریسی میں ہے۔ حقیقی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک غلامی کی یہ یادگاریں منہدم نہ کر دی جائیں۔