Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Khooni Inqilab?

Khooni Inqilab?

عمران خان کا ٹویٹ معمولی بیان نہیں ہے۔ اس میں جہان معنی پوشیدہ ہے۔ عمران خان اپنے تازہ ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک انقلاب کا مشاہدہ کر رہے ہیں، سوال یہ صرف یہ ہے کہ آ یا یہ بیلٹ باکس کے ذریعے نرم ہو گا یا خون ریزی کے ذریعے تباہ کن؟ ان خیالات کی جو مرضی تشریح کر لی جائے امر واقع یہ ہے کہ ایک مقبول ترین سیاست دان کو یہ لہجہ زیب نہیں دیتا۔ اس معاشرے نے بہت سا خون دیکھ لیا ہے۔ اب اس سماج کا ہیرو وہ نہیں ہو گا جو اسے کسی نئی مہم جوئی کی بھینٹ چڑھا دے بلکہ ہیرو وہ ہو گا جو اسے امن کی دولت سے مالال مال کرے گا۔

وہ وقت بیت گیا جب یہاں سیاسی قیادتوں نے لہو کو رومانوی رنگ دیا تھا۔ تعلیمی اداوں میں بھی نغمے گونجا کرتے تھے لہو کے قطرے لہو کے قطرے، یہ لہو کا کھیل ہم نے بہت کھیل لیا۔ ہمارے ہاں عشروں تک قیادت کی سرخروئی کا پیمانہ بصیرت نہیں تھی بلکہ پیمانہ یہ تھا کہ کس کے پرچم تلے لاشوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جس نے اپنی بے بصیرتی سے جتنا بڑا مقتل آباد کیا ہوتا وہ اتنا ہی بڑا قائد انقلاب تصورکیا جاتا۔

قیادت کی بے بصیرتی کے تاوان میں، یہ لہو صرف پاکستان کے گلی کوچوں اور تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بہا، یہ لہو ملک سے باہر بھی کام آیا۔ لاشوں کو فینٹسائز کیا گیا اور رومانوی رنگ چڑھایا گیا۔ لاشے اٹھا اٹھا کر جب قوم تھک گئی تو معلوم ہوا مقتل کی ساری رونقیں تو غریب کے بچوں کے دم سے آباد تھیں۔ جو دوسروں کو رجز پڑھ پڑھ کر مقتل کی جانب دھکیل رہے تھے ان کی اپنی اولادیں تو مزے میں تھیں۔ کوئی بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہا تھا، کوئی پارلیمان میں جلوہ افروز تھا، کوئی کاروبار کر رہا تھا، ہاں غریب کے بچے کی زبان پر یہی نعرہ تھا لہو کے قطرے، لہو کے قطرے۔

عام آدمی کے لہو سے ابن الوقت سیاست کی ڈائن نے ہمیشہ اپنی مانگ سجائی ہے۔ اب گرامی قدر جناب عمران خان میدان عمل میں ہیں جو ایک بار پھر لہو اوور خونی انقلاب کی بات کر رہے ہیں۔ ہماری قیادت جس سفاکی سے لہو لہو کر تی رہتی ہے اس رویے پر حیرت ہوتی ہے۔ اس طرز عمل کا نفسیاتی مطالعہ ہونا چاہیے کہ قیادت کو لہو سے اتنی رغبت کیوں ہے؟

کیا اس کی وجہ ہے کہ جو لہو ایسی مہم جوئی میں کام آنا ہوتا ہے، قیادت کو تسلی ہوتی ہے کہ وہ غریبوں کا ہوتا ہے۔ قیادت خود تو محفوظ ہوتی ہے، اس کی بیوی ویسے ہی غیر سیاسی ہوتی ہے، اس کے بچے ملک سے باہر پر سکون معاشروں میں زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں، ایسے میں اگر لہو بہتا ہے یا بہتے لہو کی دھمکی دے کر اس کی رنگت میں سے انقلاب کی قوس قزح برآمد کر لی جاتی ہے تو اس میں قیادت کا کیا جاتا ہے؟ اس کے لیے تو سب کچھ ایک تماشے ا ور کھیل سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

اس قوم کے فکری حلقے کو بھی مجاوری لاحق ہو چکی ہے۔ عالم یہ ہے کہ اب اس بات پر بھی داد دی جاتی ہے کہ فلاں قائد انقلاب فلاں مقتول یا مقتولہ کے گھر تعزیت کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ اس عمل پر ایسے بغلی بجائی جاتی ہیں گویا قائد محترم کے تشریف لے جانے سے مقتول یا مقتولہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی ہو۔ دکھ بھی اشرافیہ کے اور سکھ بھی اشرافیہ کے اور تعزیتیں بھی اشرافیہ کی۔ عام آدمی کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ وہ کسی سڑک پر روند دیا جائے جب بھی اس کے دکھوں کو یہ خبر ڈھانپ لیتی ہے کہ قائد محترم تعزیت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے تھے۔

دنیا میں معاشرے اپنے فطری رنگ سے آگے بڑھ رہے ہیں، کہیں ایجادات ہو رہی ہیں کہیں تفریح کے مواقع زیر بحث ہیں، کہیں سیاست کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں، کہیں شعرو ادب کی نئی دنیائیں تخلیق ہو رہی ہیں۔ لیکن ایک ہمارا معاشرہ ہے جو ایک غیر فطری آسیب میں جکڑا جا چکا ہے۔ نہ یہاں سیاست کے سوا کوئی کام ہو رہا ہے کہ یہاں سیاست کے علاوہ کوئی بات ہو رہی ہے۔ جدھر دیکھو سیاست، جہاں جائو سیاست۔ جنازے میں سیاست میں سیاست، دفتر میں سیاست، گلی کوچے میں سیاست۔ ہم توازن کھو چکے۔ ہم ایک غیر متوزن اور اپاہج قسم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی کو اپنے مسائل اور دکھوں کی پروا ہ نہیں، سب اپنے اپنے حصے کے قائد انقلاب کی خاطر سراپا رقص ہیں۔ زبانیں بھی رقص میں ہیں، قلم بھی رقص میں ہیں، وجود بھی رقص میں ہیں۔

تین سال کے دور اقتدار کی ناہلیوں کو ڈولی مین بٹھا کر قافلہ انقلاب کے قائد محترم اب خونی انقلاب کی نوید دے رہے ہیں۔ یہ ہے ان محبتوں کا صلہ جو اس قوم نے ان کو دیں۔ خون، لہو، خونی انقلاب۔ یہ ہے وہ مبلغ شعوری سطح جس سے ہم اس ملک کوا س صدی میں آگے لے کربڑھنا چاہتے ہیں۔

مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ سیاست کا لہو سے کیا تعلق ہے۔ جو سیاست میں خونی انقلاب کی بات کرتے ہیں اس کے فکری افلاس پرترس آتا ہے۔ سیاست بند گلی سے راستے نکالنے کا نام ہے۔ سیاست نا ممکنات میں سے ممکنات تلاش کرنے کانام ہے۔ سیاست ایک طر ز عمل کا نام ہے۔ یہاں اپنی بات پر اصرار کیا جاتا ہے لیکن دوسروں کے وجود کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ سیاست منگولوں کی لشکر کشی کا نام نہیں کہ جو سامنے آئے روند دیا جائے اور اپنی ہی بات کوحرف حق قرار دے کر نافذ کر دیا جائے۔ جمہوریت اور سیاست کے تصورات سامنے آئے ہی اس لیے تھے کہ معاشرہ قتل و غارت سے بچ جائے اورسارے اختلافات کے باوجود پر امن طریقے سے آ گے بڑھے۔ اب اگر سیاست میں پھر سے لہو اور خون اور خونی انقلاب کی باتیں ہو نے لگیں تو اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے۔

تاہم اگر کسی کو اصرار ہے کہ خونی انقلاب کوئی بری چیز نہیں ہے اور قوموں کی زندگی میں یہ مراحل بھی کبھی آ جاتے ہیں توپھرا س قیادت سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہیے کہ اس انقلاب میں قیادت بھی اپنے بچوں اور اہل و عیال سمیت شامل ہو گی یا اس خونی انقلاب کا ایندھن صرف غریب کے بچے بنیں گے جن کی مائوں کی حسرتوں نے عشروں میں بچے پال کر جوان کیے۔ یہ بچے یہ نوجوان کیا کسی اندھے انقلاب کا ایندھن بنا کر پیدا کیے گئے ہیں، جس انقلاب کی نہ تفصیل کسی کو معلوم ہے نہ ایجنڈہ اور نہ ہی حکمت عملی۔

عمران خان ایک مقبول رہنما ہیں۔ اتنی مقبولیت کے ساتھ اگر معمولی سی بصیرت بھی ہم رکاب ہو جائے تو قیادت ایک قوم کو کھڑا کر سکتی ہے۔ یہ فیصلہ اب عمران نے کرنا ہے وہ اپنی غیر معمولی مقبولیت کو قوم کے لیے ایک نوید بنانا چاہتے ہیں یا امتحان؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran