یوسف بھائی سے شاہد حمید صاحب تک، یہ عشق کی داستان ہے۔ یہ ان زمانوں کی بات ہے جب مسٹر بکس کے یوسف صاحب زندہ تھے اور محفل کی رونقیں قائم تھیں۔ اکثر یوں ہوا کہ آتے جاتے مسٹر بکس میں جا دھمکے، یوسف بھائی سے چائے پی، چند کتابوں کی ورق گردانی کی، کچھ کتابوں پر ان سے رواں تبصرہ سنا اور چل دیے۔ پھر یوں ہوا کہ یوسف صاحب ہی نہ رہے۔ محفلیں کیسے آباد رہتیں۔ ان سے آخری ملاقات اپنے ٹاک شو میں ہوئی۔ وقت ان پر بیت چکا تھا لیکن ان کے مزاج کی بہار اب بھی قائم تھی۔ وہی شگفتگی، وہی تازگی اور وہی زندگی۔ بہت دنوں بعد ایک روز بے خیالی میں مسٹر بکس جا پہنچا کہ چند گھنٹے ہیں، یہیں گزارتے ہیں۔ گاڑی پارک کی تو یاد آیا یوسف صاحب تو اب موجود نہیں۔ خود نے خود سے سوال کیا: اب کہاں جائو گے؟ وہیں سے لوٹ آیا۔
یہ خیال بھی انہی کا تھا۔ اسے عملی شکل دینے میں پہلے ان ہی کی مسٹر بکس پر گیا اور وہاں موجود لوگوں سے سوال کیا کتنی مالیت کی کتاب کو آپ مہنگی کتاب سمجھتے ہیں۔ لوگوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک ہزار سے اوپر کی کتاب کو مہنگی کتاب سمجھا جائے گا۔ ساتھ ہی جوتوں کی ایک دکان تھی۔ یہی سوال وہاں سے پوچھا تو جواب آیا چار پانچ ہزار تک کا جوتا مہنگا نہیں ہوتا۔ ریکارڈنگ ختم کر کے میں نے مسٹر بکس پر جا کر یوسف صاحب کو نتائج سے آگاہ کیا تو ہنس کر کہنے لگے اب آپ ہی فیصلہ کر لیجیے اس معاشرے کو کتاب کی ضرورت ہے یا جوتوں کی؟
ایسے سماج میں، جہاں دارالحکومت کے کسی ایک سیکٹر میں کوئی ایک پبلک لائبریری نہ ہو، کتاب سے محبت کرنے والے لوگ کسی نعمت سے کم نہیں۔ کہیں افتخار عارف نوحہ کناں ہیں کہ عجب گھڑی تھی کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی اور کہیں سعود عثمانی دہائی دیتے ہیں یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔ ایسے ماحول میں کوئی شخص کتاب سے وابستہ ہو تو اس کتاب دوست پر رشک آتا ہے۔ جہلم میں اگلے روز ایسی ہی ایک کتاب دوست شخصیت شاہد حمید صاحب کا انتقال ہوا۔ ہمارے یوسف بھائی گویا دوسری بار فوت ہوگئے۔
تعزیت کے لیے برادرم گگن شاہد اور جناب امر شاہد کے پاس جہلم پہنچا تو بک کارنر کے شو روم میں یادوں کی ایک بیٹھک سج گئی۔ گگن شاہد بتانے لگے کہ لوگ ہمارے اس وقت کو نہیں جانتے جب میرے والد مشکل وقت سے گزر رہے تھے۔ کیسے ان پر گھر بھر کی کفالت کا بوجھ تھا اور کیسے ذمہ داریوں نے انہیں وقت سے پہلے بڑا کر دیا تھا۔ انہوں نے بک بائنڈنگ کا کام کیا، پانچ سو کے سرمائے سے کتابیں لے کر انصاف لائبریری بنائی، تنکا تنکا جوڑ کر جب اس قابل ہوئے کہ ایک عمارت میں اپنا پریس لگا سکیں تو 90 کی دہائی کا سیلاب آیا اور سب کچھ تباہ ہو گیا۔ عشروں کا سفر گویا دائروں کا سفر بن گیا۔
گگن شاہد کی باتیں سن کر مجھے ملک معراج خالد یاد آئے۔ اپنے پرانے زمانوں کو وہ بھی اسی بانکپن سے بیان کیا کرتے تھے۔ اپنی محنت سے جس جس نے پہاڑ تراشا ہو اس کا زہرہ ایسی ہی داستان کہتا ہے۔ گگن شاہد نے بتایا کہ ان کے والد کو کتابوں سے عشق تھا اور ہم بھی اس شعبے میں شوق سے آئے ہیں۔ ایک باپ کے کتابوں سے عشق کی اس سے بڑی گواہی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اولاد کو بھی اسی شعبے میں لے آئے اور اس زمانے میں لے آئے جب قریب قریب اس بات پر اتفاق ہو کہ کتاب کلچر دم توڑ رہا ہے اور یہ ہر گز کوئی منافع بخش کاروبار نہیں۔
جن دنوں میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کا طالب علم تھا اور ڈیپارٹمنٹ کے میگزین کا مدیر بھی تھا تو میں افتخار عارف صاحب کا انٹرویو کرنے گیا۔ انٹرویو کے بعد جانے کیا بات ہوئی معلوم نہیں لیکن سوال آج بھی یاد ہے۔ میں نے پوچھا: عیش کسے کہتے ہیں؟ جواب ملا: جب آپ کے شوق سے آپ کا رزق وابستہ ہو جائے۔ شاہد حمید صاحب نے بھی گویا عیش کی اور گگن اور امر بھی عیش کر رہے ہیں۔
جب آپ کا کام محض کام نہ ہو شوق بن جائے پھر وہ معیار سامنے آتا ہے جو بک کارنر نے دیا ہے۔ اگلے روز برادرم رئوف کلاسرہ کا محبت نامہ ملا۔ یہ ان کی نئی کتاب شاہ جمال کا مجاور تھی۔ کتاب کے متن اور معیار پر تو پھر کسی روز اہتمام سے بات کریں گے اس کی پیکنگ ہی اتنی شاندار تھی کہ کھولتے ہوئے نقصان کر بیٹھنے کا ایک احساس دامن گیر ہو گیا۔ جس اہتمام سے بک کارنر والے کتاب پارسل کرتے ہیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔ ان کی کتابیں صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہوتیں، یہ گھر کی آرائش میں بھی کام آتی ہیں۔ ایک کتاب کے ساتھ اسی چائو اور اسی پیار کا معاملہ کرنا چاہیے۔ لیکن یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کے رزق سے اس کا شوق وابستہ ہو اور جس کی تربیت میں کتاب سے محبت کسی آدرش کی صورت رکھ دی گئی ہو۔
ہرسیلف میڈ آدمی خواب دیکھتا ہے۔ وہی افتخار عارف والی بات کہ صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ۔ شاہد حمید صاحب نے بھی خواب دیکھا اور تنکا تنکا اس خواب کو پروتے چلے گئے۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اس خواب کی تعبیر دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ بک کارنر کو اب کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔ اب جہلم کا حوالہ بک کارنر ہے۔ جس شخص کا خواب تعبیر پا کر اپنے شہر کا حوالہ بن جائے اس شخص کو کب موت آتی ہے۔
گگن اور امر کے ہاں گیا تو تعزیت کرنے تھا لیکن ان کے والد کو موت آئی ہی کب ہے۔ بک کارنر کی صورت وہ زندہ ہیں۔ وہ اپنی ان کتابوں میں بھی زندہ رہیں گے جن کی صورت گری میں ان کے رت جگے شامل رہے۔ عشروں پہلے جب بک کارنر ایک پودا تھا اسے سینچنے والے شاہد حمید اکیلے تھے۔ اب بک کارنر تناور درخت ہے اور اسے سینچنے کو دو شاہد حمید موجود ہیں۔ ایک گگن اور ایک امر۔ ان تینوں کی صورت مرحوم زندہ رہیں گے۔ کتاب زندہ رہے گی۔