Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Kon Sa Israel?

Kon Sa Israel?

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ماحول بنایا جا رہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ کون سے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جانا چایئے؟ 1947 والا اسرائیل یا 1948 کی جنگ کے بعد والا اسرائیل؟ یا وہ اسرائیل جو 1967 کی جنگ کے بعد غاصبانہ قبضے کی شکل میں مزید پھیل گیا؟ یا وہ اسرائیل جو 1973 کے بعد مزید علاقوں پر ناجائز قابض ہو گیا؟ یا وہ اسرائیل جو ہر دو موسموں بعد مزید عرب علاقوں پر قابض ہو جاتا ہے؟ یا پھر وہ اسرائیل جس نے ا قوام متحدہ کے قوانین اور ضوابط پامال کرتے ہوئے ایک ایسے شہر کو دارالحکومت بنا رکھا ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت اس کا شہر ہی نہیں ہے؟ ایک اسرائیل وہ ہے جو 1948 میں قائم ہوا۔ اس کے قیام میں کیا کیا ظلم ہوئے اس پر پھر کسی دن بات کریں گے فی الوقت زیر بحث نکتہ کچھ اور ہے۔ یہ اسرائیل، آج کے اسرائیل کی نسبت بہت مختصر سا تھا۔ اس اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے تو سوالات کچھ اور ہوں گے۔

ایک اسرائیل وہ ہے جو1948 سے لے کر 1966 تک ناجائز قبضے کی شکل میں مزید پھیلتا چلا گیا۔ کیا اس اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے؟ اس صورت میں سوالات کی نوعیت تھوڑی مختلف ہو جائے گی۔

ایک اسرائیل 1967 میں وجود میں آیا جب اس نے مغربی کنارے کے 5878 مربع کلومیٹر، غزہ کے 363 مربع کلومیٹر، مصر کے صحرائے سینا، شام کی گولان کی پہاڑیوں کے 1150 مربع کلومیٹر پرقبضہ کر لیا۔ اگر اس اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے تو پھر ہم طالب علموں کے سوالات کی نوعیت کچھ اور ہو گی۔

ایک اسرائیل وہ ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے مقبوضہ جات بھی پھیلاتا گیا اور وہاں تعمیرات بھی کرتا گیا اور اس نے دارالحکومت بھی اس شہر میں بنایا جو انٹر نیشنل لاء کے تحت اس کا شہر نہیں ہے۔ اگر اس اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے تو پھر سوالات کی نوعیت مزید تبدیل ہو جائے گی۔

ایک اسرائیل اور بھی ہے۔ یہ وہ ہے جس کا ذکر فرانس کے سابق ڈپٹی سپیکر راجر گراڈی نے اپنی کتاب " دی فائونڈنگ متھس آف اسرائیلی پالیسی" میں کیا ہے۔ اس اسرائیل کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ راجر گراڈی کا کہنا ہے کہ یہ بات اسرائیل کی پالیسی کے بنیادی نکات میں سے ایک ہے کہ Biblical Lands جہاں تک ہیں وہاں تک اسرائیل ہے۔ یہ جو دھیرے دھیرے اسرائیل پھیلتا چلا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ کے سارے ضابطے پامال کر کے پڑوسی ریاستوں کو چاٹتا جا رہا ہے، راجر گراڈی کے نزدیک یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کی اس طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے کہ Biblical Lands پر اس کا حق ہے اور تورات میں جن جن زمینوں کا ذکر آیا ہے وہ اسرائیل ہے۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مقدمہ کھڑا کرنے والے اگر وضاحت کر دیں کہ وہ ان میں سے کس اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں تو ہم طالب علموں کو سوالات اٹھانے میں آسانی ہو جائے گی۔

کسی بھی ملک کو جب آپ بطور ریاست تسلیم کرتے ہیں تو یہ اقوام متحدہ کے طے کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور انٹر نیشنل لاء کی پوزیشن تو کچھ اور ہے۔ آپ کس اسرائیل کو کس منطق کے تحت قبول کریں گے؟

مثال کے طور پر انٹر نیشنل لاء کے تحت یروشلم شہر اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ اب ایک شہر جو قانونی طور پر اسرائیل کا حصہ ہی نہیں ہے اسے اسرائیل کا دارلحکومت کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم، جہاں مسجد اقصی واقع ہے، آج بھی فلسطین کا علاقہ ہے اسرائیل کا نہیں۔ تینوں مذاہب کے مقدسات اسی مشرقی یروشلم میں ہیں جو انٹر نیشنل لاء کے تحت فلسطین کا علاقہ ہے۔

مثال کے طور پر مغربی کنارہ انٹر نیشنل لاء کے تحت آج بھی اسرائیل کا حصہ نہیں ہے، یہ اردن کا علاقہ ہے جس پر اسرائیل قابض ہے اور اقوام متحد ہ نے اس قبضے کو ناجائز قرار دے رکھا ہے۔ مثال کے طور پرانٹر نیشنل لاء کے تحت غزہ اسرائیل کا نہیں، مصر کا علاقہ ہے۔ مثال کے طور پر انٹر نیشنل لاء گولان کی پہاڑیوں کو آج بھی اسرائیل کا حصہ نہیں مانتا، قانونی طور پر یہ آج بھی شام کی ملکیت ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردا د نمبر 242 کے تحت اسرائیل ان مقبوضہ جات کو خالی کرنے کا پابند ہے۔

اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں جو بحث کھڑی کی جا رہی ہے اس میں ذرا یہ تو واضح کر دیا جائے کہ یہ دلائل کون سے اسرائیل کے حق میں دیے جا رہے ہیں؟ 1948 کی جنگ سے پہلے والے یا جنگ کے بعد والے، 1967 والے، 1973 والے، موجودہ، یا مستقبل کے اس اسرائیل کے، جس کا ذکر فرانس کے ڈپٹی سپیکر نے اپنی کتاب میں کیا تھا؟

اقوام متحدہ جن علاقوں کو آج بھی اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے جو طے کردہ اصول امریکی سرپرستی کے باوجودا سرائیل ختم نہیں کروا سکا، کیا اسرائیل کو موجودہ شکل میں تسلیم کر نے کی بات اقوام متحدہ کے ان اصولوں کی نفی نہیں ہو گی؟

بہت سارے سوالات ہیں اور بہت سارے پہلو ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ چلیں اگلے کچھ کالموں میں ذرا تفصیل سے بات کر لیتے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran