کلبھوشن یادیو سے جاوید اختر تک، کیا یہ ایک ہی کہانی ہے؟ ایک ہمارا بدن لہو کرنے آتا ہے اور دوسرا ہماری روح اور جذبات کو۔ ایک کا میدان عملی تھا دوسرے کا ثقافتی؟
میزبانی کے آداب یک طرفہ نہیں ہوتے۔ احترام باہمی کا یہ سلسلہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ مہمان اگر احترام و وضع کی اس نازک حد کو پامال کرتے ہوئے میزبان ریاست پر ہی فرد جرم عائد کر دے تومیزبان کا یہ حق ہے وہ بھی چہرے پر ویسی ہی مسکراہٹ لیے سارے احترام کے ساتھ جواب آں غزل ضرور کہے۔
بد تمیزی اور بد تہذیبی ہر گز مقصودنہیں لیکن مہمان کو پوری شائستگی سے مخاطب کرتے ہوئے کہا جا سکتا تھا کہ جناب ذی وقار یہ کلبھوشن یادیو کیا آپ کی طرف سے ثقافتی طائفہ لے کر پاکستا ن آ ئے تھے۔ ان سے یہ بھی پوچھا جا سکتا تھا کہ یہ دو ماہ قبل پاکستان نے لاہور دھماکے کا جو نیٹ ورک پکڑا، جس میں بھارتی شہری ملوث تھے اور وہ باقاعدہ گرفتار کیے گئے تو اس پر آپ کی کیا رائے ہے۔
یہی نہیں بلکہ اگر محترم مہمان چاہتے تو شروع سے لے کر اب تک پاکستا ن کے ساتھ بھارت کی جانب سے جو کچھ کیا گیا، وہ ساری فہرست ان کے سامنے رکھی جا سکتی تھی۔ انہیں پاکستان کے خلاف بھارتی آبی مہم بھی یاد دلائی جا سکتی تھی۔ ان سے کہا جا سکتا تھا کہ جناب آپ تو مقبوضہ کشمیر میں علی گیلانی کے جسد خاکی کو بھی چھین کر لے جاتے ہیں۔ انہیں قیام پاکستان سے لے کر اب تک بھارت کا سارا نامہ اعمال دھیمے سروں میں سنایا جا سکتا تھا۔
لیکن یہاں تو کھیل ہی الٹا تھا۔ مہمان کی بد ذوقی اور بد اخلاقی تو تکلیف دہ تھی ہی، تماشا یہ ہوا کہ میزبانوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ سوچ رہا ہوں اس خود سپردگی کو کیا نام دوں؟ کیا یہ لبرل انتہا پسندی ہے؟ یعنی ہر اس فرد جرم پر مجنوں کی طرح تالیاں پیٹنا شروع کر دینا جو مذہب یا ریاست پر عائد کی جائے؟ میرا نہیں خیال اس بیمار رویے کو اعتدال یا مہمان نوازی کا نام دیا جا سکے۔ یہ رد عمل کی دوسری انتہا پسندی ہے جو اتنی ہی خطرناک ہے جتنی مذہبی انتہا پسندی۔
مکرر عرض ہے کہ انتہا پسندی حلیے اور پیرہن کا نام نہیں ہے۔ انتہا پسندی کا تعلق رویوں سے ہوتا ہے۔ خود گریزی کی یہ انتہائی شکل کہ ایک مہمان جس کاتعارف ادب ہے اور جسے ایک ادبی تقریب میں بلایا گیا ہے، وہاں بیٹھ کر میزبانوں کی ریاست کے نام جرم کی روبکار بھیج کر اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتا ہے اور اس کے قدموں سے لپٹے مجاور اس گالی پر بد مزہ ہونے کی بجائے وجد میں آ جاتے ہیں۔ اس رویے کے شکار لوگوں کو پہلی فرصت میں کسی اچھے نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے، یہ ملک پہلے ہی انتہا پسندی کے ہاتھوں گھائل ہو چکا ہے یہ مزید انتہا پسند ـ افورڈـ، نہیں کر سکتا۔
ہمارے نام نہاد ترقی پسند ادیبوں کا یہ عارضہ بہت پرانا ہے۔ ایک تو یہ اصطلاح ہی بڑی دل چسپ ہے: ترقی پسند ادیب، ۔ عالی جاہ، آپ کی شاعری اور وغیرہ وغیرہ اپنی جگہ، لیکن اس کا ترقی سے کیا تعلق، اور دیگر ادیبوں کی ترقی سے کون سی لڑائی ہے کہ ترقی پسند، کا یہ اعزاز صرف آپ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ اگر خود فریبی نہیں تو اپنی ترقی کی دو چار مثنویاں تو سناتے جائیے۔
ترقی پسند انتہا پسندی، کا یہ عارضہ پرانا ہے۔ قومی بیانیے سے لاتعلقی انہیں ورثے میں آئی ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں کی بات ہے، اقوام متحدہ میں کشمیروں کے حق خود رادیت کے لیے قرارداد منظور کی جا چکی تھی۔ یہاں ترقی پسند، ادیبوں کی ایک کانفرنس ہو رہی تھی۔ کچھ ادیبوں نے چاہا کہ استصواب رائے کے حق میں ایک قرارداد منظور کر لی جائے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ منظور ہونا تو دور کی بات ہے، ترقی پسند، ادیبوں نے اس قرار داد کو پیش کرنے کی اجازت بھی نہ دی۔ ان کا شاید خیال تھا کہ کہ اسلام، پاکستان، پاکستانیت اور کشمیر کی بات کرنے سے ان کی روشن خیالی اور ترقی پسندی متاثر ہو جائے گی۔ ان ادیبوں کی فکری پسپائی کا یہ عالم تھا کہ قیام پاکستان کے حوالے سے ایک صاحب نے لکھا:
پھر بھیانک تیرگی میں آ گئے
ہم گجر بجنے سے دھوکہ کھا گئے
ظہیر کاشمیری نے تو یہاں تک لکھ ڈالا کہ " سر زمین وطن سے وفاداری زمانہ جہالت کی یاد گار ہے"۔ ترقی پسند ادیب فکری طور پر آج بھی شاید وہی کھڑے ہیں اور سر زمین وطن سے محبت ان کے نزدیک جہالت ہے ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک بھارتی شاعر یہاں آئے اور سب کے سامنے پاکستان پر فرد جر عائد کر دے اور شرکاء اس پر بد مزہ ہونے کی بجائے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں۔ اس ادبی حلقے کی فکری ہیئت پر حسن عسکری نے شاندار گرہ لگائی تھی۔ انہوں نے ایک ترقی پسند ادیب کے بارے میں لکھا کہ " وہ کیفے اورینٹ میں کائونٹر کی طرف منہ کر کے بیٹھتے ہیں"۔
دو پڑوسی ممالک میں تلخی کی ایک تاریخ ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس دشمنی کا آغاز بھارت کی جانب سے ہوا۔ اور پہلے دن سے ہوا۔ وہ ایک طویل تاریخ ہے جس کا یہاں ذکر ممکن نہیں لیکن بھارت نے پہلے روز سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی مرکزی قیادت کا یہ خیال تھا کہ یہ ملک چند مہینوں میں ناکا ہو کر واپس ہندوستان میں ضم ہو جائے گا۔ اس کے لیے معاشی ناکہ بندی سے لے کر، اس کے حصے کے وسائل دینے سے انکار تک اور پنجاب اور جموں میں قتل عام سے لے کر پشتونستان کی مہم جوئی تک ہندوستان نے کیا نہیں کیا۔
اس تاریخ کے تناظر میں اگر پاکستا ن اور بھارت کے ادیب و شعراء مل بیٹھتے ہیں تو کم از کم تقاضا یہ ہے کہ احترام باہمی قائم رکھا جائے۔ جاوید اختر نے پاکستان کے گلوکاروں کا ذکر کیا کہ وہ بھارت میں مہمان بن کر جاتے رہتے ہیں لیکن پاکستان نے کبھی لتا جی کو نہیں بلایا۔ ان کی معاملہ فہمی بھی واجبی سی تھوڑی کم درجے کی ہے کہ وہ یہ بات بطور مہمان ہی کر رہے تھے۔ یعنی بطور مہمان پاکستان میں بیٹھ کر وہ پاکستانیوں کو طعنہ دے رہے تھے کہ وہ ہندوستان والوں ک بطور مہمان نہیں بلاتے۔
ویسے کیا یہ ممکن تھا کہ مہدی حسن، غلام علی اور نصرت فتح خان صاحب مرحوم جیسے فنکار بھارت میں بیٹھ کر کشمیر کا ذکر کر دیتے اور بھارت کے شرکاء یہ سن لیتے۔ انتہا پسند ہندو شائونزم ان کی جینا حرام نہ کر دیتا۔ جاوید اختر صاحب اپنے خوفناک تضادات کے باوجود یہاں ہمارے اوپر فرد جرم عائد کر کے چلتے بنے۔
سوال یہ ہے کہ یہ فیض کے نام سے سجائی گئی کانفرنس کے شرکاء کا تعین کون کرتا ہے ا ورا س کے اخراجات کہاں سے برداشت کیے جاتے ہیں؟