Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Kya Bradley Sherman Pakistan Ke Viceroy Hain?

Kya Bradley Sherman Pakistan Ke Viceroy Hain?

پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کے خلاف عمران خان نے جو مقدمہ کھڑا کیا تھا، وہی مقدمہ اب ان کے قاصد نے امریکی کانگریس کے رکن بریڈلے شرمن کے حضور پیش کر دیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حقیقی آزادی کا یہ سفر اب بریڈ لے شرمن کی رہنمائی میں تمام ہوگا۔ غلطی ہائے مضامین کے یہ مظاہر دیکھ کر جان ایلیا یاد آتے ہیں:

محبت بری ہے، بری ہے محبت

کہے جا رہے ہیں، کیے جا رہے ہیں

محبت کی طرح امریکی مداخلت بھی بری ہے، اتنی بری کہ آدمی پکار اٹھتا ہے: ہم کوئی تمہارے غلام ہیں کہ جو تم کہو ہم وہی کریں۔ لیکن محبت کی طرح ہی یہ مداخلت بھی دیوار دل کی روشنی ہے، سو اسی کو برا کہہ رہے ہیں اور اسی کی درخواست بھی کیے جا رہے ہیں۔

اب گویا امریکی رکن کانگریس سے مداخلت کی درخواست کی جا رہی ہے تا کہ امریکی مداخلت کا خاتمہ ہو سکے اور حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہو جائے۔ غالب نے کہا تھا:

بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات

عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا

ملکی سیاست میں تحریک انصاف کا ایک مقدمہ ہے، اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اتفاق بھی۔ لیکن ملکی سیاست کے معاملات کو ایک غیر ملکی سیاست دان کے حضور پیش کرنا اور اس سے مدد کا طالب ہونا ایک ایسا فعل ہے جس کی کوئی توجیح پیش نہیں کیا جا سکتی۔ تحریک انصاف کو کس نے بتایا ہے کہ بریڈ لے شرمن پاکستان کے وائسرائے ہیں اور ملکی سیاست کی شکایات ان کے حضور پیش کر کے رعایا انصاف طلب کر سکتی ہے؟ یا پھر ہم نے کہیں اپنے آئین میں یہ لکھ رکھا ہے کہ اگر ملکی سیاست میں کچھ مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ہم نے ایک آئینی عدالت بنا رکھی ہے جس کے چیف جسٹس جناب عزت مآب بریڈ لے شرمن صاحب ہیں، اور ان کی عدالت میں ایک آئینی پیٹیشن دائر کی جا سکتی ہے؟

یا کہیں امریکہ نے اپنے اعلان آزادی کے ساتھ کوئی اضافی دستاویز بھی منسلک کر رکھی ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کسی ملک کی آزادی کے درپے ہوگیا ہے اور وہاں آزاد منش انسانوں کی حکومت ختم کرنے جا رہا ہے یا کر چکا ہے تو داد رسی کے لیے اس ملک کے اہل سیاست بریڈ لے شرمن سے رجوع فرمائیں۔ شرمن صاحب امریکی آئین کے تناظر میں یہ حلف اٹھا چکے ہیں کہ وہ دنیا کو امریکی غلامی سے حقیقی آزادی دلائیں گے اور اگر کسی نے پوچھ لیا کہ ہم کیا تمہارے غلام ہیں تو شرمن صاحب پہلی فرصت میں اسے بتائیں گے نہیں پیارے بھیا تم کسی کے غلام نہیں ہو تم تو عزیمت کا استعارہ، جرات کا سابقہ اور ہمت کا لاحقہ ہو۔

داخلی سیاست میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر اگر اپنے معاملات کی غیر ملکی قوتوں کو جا کر شکایت لگائی جائے تو پھر بتائیے تو سہی کہ غیر ملکی مداخلت کس چڑیا کا نام ہے۔ کس حاکمانہ ادا سے بریڈ لے شرمن نے ٹویٹ کیا کہ ان سے جناب عمران خان نے بھی بات کی ہے اور جلد ہی وہ اس پر ایک بیان جاری کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کس حیثیت سے بیا ن جاری کریں گے؟ کیا بریڈ لے شرمن اور تحریک انصاف کے خیال میں پاکستان ایک بنانا ری پبلک ہے اور اس کے معاملات امریکی کانگریس کے اراکین کی جنبش ابرو سے طے ہوں گے۔

سید مودودی کے ایوب خان سے شدید اختلافات تھے۔ علاج کی غرض سے سید صاحب امریکہ پہنچے تو کسی صحافی نے ایوب کے بارے میں کوئی سوال پوچھ لیا۔ مسکرا کر کہا کہ ایوب خان سے میرے اختلاف ایک بیگ میں رکھے تھے، اتفاق سے وہ بیگ میں پاکستان میں ہی چھوڑ آیا۔ یہاں میں صرف ایک پاکستانی ہوں۔ یہ ہے وہ مثالی رویہ جو ایک پاکستانی کو پاکستان سے باہر رکھنا چاہیے۔

ملک کے اندر عدلیہ موجود ہے۔ عمران خان اس کے مداح بھی ہیں۔ وہ تحفظ عدلیہ کے نام پر ریلی بھی نکال چکے ہیں۔ انہیں ریلیف بھی مل رہا ہے۔ ان کے کچھ تحفظات ہیں تو انہیں عدلیہ سے رجوع کرنا چاہیے یا امریکی کانگریس کے رکن کے حضور شکایت لگانی چاہیے؟

یہ درست ہے کہ آدمی اپنی افتادطبع کا اسیر ہوتا ہے لیکن یہ غلط نہیں کہ اسے اپنے فلسفہ حیات سے مخلص رہنا چاہیے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان کا سارا بیانیہ اس نکتے کے گرد گھوم رہا تھا کہ وہ قومی غیرت کے امین تھے اور امریکی مداخلت سے انہیں اقتدار سے الگ کیا گیا۔

دلچسپ بات ہے کہ امریکہ میں اب بھی وہی حکومت ہے اور وہ اسی پارٹی کے ایک رکن کانگریس کے پاس شکایت لگا رہے ہیں۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ایک بار پھر مداخلت کرے، ایک بار پھر سازش کرے اور انہیں اقتدار میں لا بٹھائے تاکہ وہ قوم کو حقیقی آزادی سے روشناس کرا سکیں اور امریکی غلامی سے نکال کر اسے با عزت قوم بنا سکیں؟ دل چسپ بات یہ کہ شکایت بھی کس کی لگا رہے ہیں؟

امریکہ کی نہیں، پاکستان کی۔ بھارتی اخبارات و جرائد اس کی یوں رپورٹنگ کر رہے ہیں جیسے پاکستان میں غزہ یا سری نگر بنا دیا گیا ہو۔ بلا شبہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر تحریک انصاف کے حقوق پامال نہیں ہونے چاہییں لیکن ازالے کا فورم پاکستان کی عدالت ہے، امریکہ کا کانگریس کا رکن نہیں۔ امریکی اراکین کانگریس سے بات کرنا تھی تو یہ کی ہوتی کہ امریکہ دوسرے ممالک میں مداخلت کیوں کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ کو مداخلت کی دعوت دینا کہاں کی وطن دوستی ہے؟

پاکستان میں اہل سیاست جیلوں میں پہلے بھی جاتے رہے ہیں، مقدمات بھی بنتے رہے ہیں، حکومتیں بھی ختم ہوتی رہی ہیں، یہ معاملات غلط بھی ہو سکتے ہیں اور درست بھی لیکن کسی بھی صورت میں یہ کسی غیر ملکی مداخلت کا جواز نہیں بن سکتے۔

اقتدار ہر ایک کو اچھا لگتا ہے لیکن اقتدار کی خاطر ہر حد سے گزر جانا کوئی نیک شگون نہیں۔ ذات کا گنبد جتنا بھی عزیز کیوں نہ ہو وہ ملک سے بڑا نہیں ہو سکتا۔ یہ رویہ کہ مجھے اقتدار نہیں ملے گا تو میں ریاست ہی کو کٹہرے میں کھڑا کر دوں گا، سیاست نہیں ہے۔ ہر حال میں اور ہر قیمت پر اقتدار کی خواہش اگر قابو سے باہر ہو رہی ہو توپھر اتنا تو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہاں ہاں ہم تمہارے غلام ہیں، تم ہمارے خلاف سازش کر کے ہمیں اقتدار سے الگ کروادو، ہم پھر بھی التجا لے کر تمہارے ہی دربار میں حاضر ہوں گے۔

بریڈ شرمن کو بھی سلمان خان اور قاسم خان کی طرح اردو نہیں آتی ہوگی ورنہ وہ بھی یہ عرضی سن کر پروین شاکر کو یاد کر رہے ہوتے:

وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہر جائی کی

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran