جناب عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا اس مطالبے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز موجود ہے؟ اور کیا ایک بڑی سیاسی جماعت کے اس عدم اعتماد کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے اپنے منصب پر فائز رہنے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جوازباقی ہے؟ معاملے کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ ان دونوں پہلوئوں پر غور کر لیا جائے۔
الیکشن کمیشن کا تعلق انتخابات سے ہے۔ جو ادارہ انتخابات کرواتا ہے اس کی اور اس کے سربراہ کی غیر جانبداری مسلمہ ہونی چاہیے۔ چیف الیکشن کمشنر انتخابات کے عمل کا امپائر ہوتاہے۔ اب اگر ایک بڑی سیاسی جماعت اس کھیل کے امپائر پر ہی عدم اعتماد کا اظہار کر دے تو اس کھیل کی شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے؟ چنانچہ یہ منطقی سی بات ہے کہ جب الیکشن کمشنر پر کسی ایک فریق کو اعتماد نہ رہے تو یہ عدم اعتماد پورے انتخابی عمل کو سوالیہ نشان بنا سکتا ہے۔
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یہاں یہ سوال بھی کم اہم نہیں کہ چیف الیکشن کمشنر پر جو جماعت عدم اعتماد کر رہی ہے اس کے پاس اس عدم اعتماد کے لیے کوئی دلیل بھی ہے یا وہ اس انوکھے لاڈلے کی طرح ہے جو کسی وقت مچل اٹھے تو کھیلنے کو چاند بھی مانگ لے؟
منصف کے بارے یہ اصول عدالتوں میں بھی موجود ہے کہ فریق مقدمہ میں سے کسی کو جج پر اعتماد نہ ہو تو وہ جج تبدیل کرکے اپنا مقدمہ کسی دوسرے جج کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی موجود ہے کہ ایسامطالبہ کرتے وقت مناسب وجوہات بتانا ہوں گی اور محض الزام عائد کر دینا کافی نہ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف جب چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں اور تحریک انصاف کے پاس اس مطالبے کے حق میں دلائل کتنے ہیں؟
موجودہ چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب کس نے کیا تھا؟ خود جناب عمران خان نے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک آئینی عہدے کے لیے کل آپ نے خود جس شخص کا انتخاب کیا، اب اچانک ایسا کیا ہوا کہ اس عہدے پر وہی شخص آپ کو غیر موزوں لگنا شروع ہو گیا؟
یہ کوئی عام منصب تو تھا نہیں، ایک آئینی عہدہ تھا۔ اس کے لیے کسی شخص کے انتخاب سے پہلے اس کی اہلیت جانچنے کا طریق کار بھی یقینا غیر معمولی ہو گا۔ وزیر اعظم نے یقینا اس شخص کی اہلیت اور دیانت کے بارے میں تسلی کر لی ہو گی، اس کے بارے میں اداروں سے رپورٹ بھی لی ہو گی، اپنی جماعت کے اکابرین اور اپنے سیاسی حلیفوں سے بھی پوچھا ہو گا، تب جا کر ہی اس کا انتخاب کیا ہو گا۔ اب اچانک ایسا کیا ہوا کہ اس سے استعفے کا مطالبہ کیا رہا ہے جسے خود ہی منتخب کیا تھا؟
اپنے انتخاب سے لے کر اب تک چیف الیکشن کمیشن نے کہیں کوئی ایسا کام کیا ہو جسے غیر آئینی، غیر قانونی، یا متعصبانہ اور غیر منصفانہ کہا جا سکے؟ اگر ایسا کوئی اعتراض ہے تو وہ سامنے لایا جانا چاہیے۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر ایک آئینی عہدے کے ساتھ وہ کھلواڑ تو نہیں ہو سکتا جو پنجاب میں پولیس کے آئی جیز کے ساتھ ہوتا رہا۔
حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی پامالی پر جناب وزیر اعظم کو الیکشن کمیشن نوٹس دیتا رہا۔ یہ نوٹس قانون کے عین مطابق تھے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کو جس طرح علی امین گنڈا پور صاحب نے اور خود جناب عمران خان نے پامال کیا اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ مزاجِ یار بہت نازک ہے، جب تک ہر منصب سر جھکائے اس کے حضور دست بستہ پیش نہ ہو، اسے تسکین نہیں ہوتی؟ کیا یہ رویہ ایک معقول رویہ ہے؟
کون سا منصب اور کونسا ادارہ ہے جسے تحریک انصاف سے امان حاصل ہو سکی ہو؟ آئی جیز سے لے کر چیف جسٹس تک، جہاں سے مرضی کے مطابق معاملہ نہ ہوا، مزاج یار برہم ہو گیا۔ جسے بدلنے پر قدرت تھی وہاں تبادلوں کا جمعہ بازار لگا دیا اور جنہیں بدلنے پر قدرت نہ تھی ا ن کی کردار کشی شروع کر دی گئی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر ریاستی ادارے کو تحریک انصاف کا ذیلی ادارہ اور ہر صاحب منصب کو برخوردار بنائے بغیر مزاج کو چین نہیں۔
فارن فنڈنگ کیس بھی آج کا نہیں۔ یہ کیس تو سالوں سے چل رہا ہے۔ ایک نہ ایک دن تو اس کا فیصلہ ہونا ہے۔ اب یہ کیسا رویہ ہے کہ جو کیس اپنے میرٹ پر جیتنے کا امکان نظر نہ آ رہا ہو اس میں منصف ہی سے استعفے کا مطالبہ کر دیا جائے؟ ایسے تو پھر ہر لاڈلا کھیلن کو چاند مانگے گا۔ ریاست اتنے چاند کہاں سے لائے گی؟
جمہوریت اپنی ساری خامیوں خوبیوں کے ساتھ ایک قانونی دائرے میں کھیلنے والا کھیل ہے۔ ایسا نہیں کہ اقتدار جاتا دیکھا تو امریکی سازش کا شور مچا دیا۔ عدم اعتماد آئی تو آئینی تقاضے پامال کر دیے۔ عدالت نے حکم دیاتو اس کا مذاق بنا دیا، عدالت نے اس مذاق اور توہین پر نوٹس لیا تو عدالت کی کردار کشی کر دی، ادارے اس غیر آئینی کھیل میں معاون نہ بنے تو اداروں کو سینگوں پر لے لیا، ساری اپوزیشن غدار اور امریکی ایجنٹ بنا دی، قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیج دیا اور اب مطالبہ ہے کہ چیف الیکشن بھی مستعفی ہو جائیں۔ بس خود استعفی نہیں دینا، باقی ہر ایک سے لے لینا ہے۔
کل تک آپ اقتدار میں تھے، اگر آپ کے پاس الیکشن کمیشن کے چیف کے خلاف کوئی شواہد تھے تو اس وقت ریفرنس کیوں نہیں بھیجا۔ آج جب فیصلے کا وقت قریب آن پہنچا تو اب ہی یہ عدم اعتماد کیوں یاد آیا۔ اگر چہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تیس دنوں میں فیصلے والا حکم معطل کر دیا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتاہے۔ ایک نہ ایک دن تو فیصلہ ہونا ہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کئی سالوں سے اس کیس کو لٹکانے کی پالیسی پر چل رہی ہے، جیتنے کی پالیسی پر نہیں۔
الیکشن کمیشن میں اپنے بنک اکائونٹس کو سکروٹنی سے بچانے کے لیے تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک یا دو یا تین نہیں، گیارہ پیٹیشنز دائر کیں، یہ سب اس وقت ہوا جب موجودہ چیف الیکشن کی جگہ اور صاحب ہوا کرتے تھے۔ مسئلہ اگر موجودہ چیف الیکشن کمشنر سے ہے تو یہ تاخیری حربے اس سے پہلے کیوں استعمال کیے جاتے رہے؟
ان تاخیری حربوں سے تنگ آ کر الیکشن کمیشن نے تحریری طور پر اپنے آرڈر میں لکھا کہ " تحریک انصاف نے قانونی طریقہ کار کے غلط استعمال کی تاریخی اور بد ترین مثال قائم کر دی ہے"۔ جب الیکشن کمیشن نے یہ لکھا اس وقت تو موجودہ چیف الیکشن کمشنر نہیں تھے۔ پھر الیکشن کمیشن نے ایسا کیوں لکھا؟ کیا صرف وہی چیف الیکشن کمشنر گوارا ہو گا جو یہ بنیادی اصول طے کر دے گا کہ عمران خان صاحب جو کرتے ہیں درست کرتے ہیں اور جو کہتے ہیں حق کہتے ہیں؟