اسرائیل جس بے رحمی سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور مسلم دنیا جس بے بسی سے، لاتعلق سی ہو کر، یہ سب دیکھ رہی ہے اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلسطین اپنی آخری جنگ ہار گیا اور کیا اسرائیل نے اپنی دوست مغربی قوتوں کی سرپرستی میں بالآخر حتمی فتح حاصل کر لی؟
غزہ ہے کتنا سا؟ 41 کلومیٹر طویل اور 12 کلومیٹر چوڑا۔ گھر سے نکل کر اسلام آباد ہائی کورٹ تک پہنچوں تو چوڑائی ختم، اور گھر سے نکل کر موٹر وے تک پہنچوں تو لمبائی ختم۔ یعنی میرے گھر سے ہائی کورٹ تک اور میرے گھر سے موٹر وے تک، فلسطین کا بس اتنا سا علاقہ ہے جسے غزہ کہتے ہیں۔
اتنے چھوٹے سے علاقے پر، جنگ کے پہلے چار ماہ میں، اسرائیل نے اتنا گولہ بارود استعمال کیا جتنا امریکہ نے پورے عراق پر پورے 7 سال میں استعمال کیا۔ یاد رہے کہ امریکہ نے صرف5 ہفتوں میں بغداد پر قبضہ کر لیا تھا اور مزاحمت دم توڑ گئی تھی۔ لیکن آدھا سال بیت جانے کے باوجود غزہ میں مزاحمت باقی ہے، حماس کا نیٹ ورک اور افرادی قوت باقی ہے اور اسرائیل حماس کی تحویل میں اپنے لوگوں کو رہا نہیں کروا سکا۔ عراق کے پاس ریگولر فوج تھی، غزہ والوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن مزاحمت اتنی شدید ہے کہ ڈیوڈ ہرسٹ جیسا دانش ور سوال اٹھا رہا ہے کہ اسرائیل کی فوج ایک ہاتھ اپنی پشت پر باندھ کر تو لڑ نہیں رہی دونوں ہاتھوں سے لڑ رہی ہے پھر بھی اگر یہ نتائج ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اسرائیل کی فوج نا اہل ہے یا پھر حماس کی مزاحمت غیر معمولی ہے؟
ڈیوڈ ہرسٹ کے اس سوال کا جواب یروشلم پوسٹ کے 11 مارچ کے اداریے میں موجود ہے۔ اس اداریے کا عنوان ہے: صفادری یہودی چیف ربی یوسف کا بیان اسرائیلی فوجیوں کی توہین ہے۔ عنوان نے اپنی جانب متوجہ کیا تو میں نے یہ اداریہ پڑھا۔ معلوم ہوا کہ فلسطینیوں کے ہاتھوں زخمی، اپاہج اور مارے جانے فوجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اسرائیل حکومت نے تمام یہودیوں کے لیے فوجی سرگرمیوں میں شرکت کو لازم قرار دے دیا اور پہلے کچھ طبقات کو اس سے استثناء تھا جو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہودیوں کے مذہبی گروہ (Haredim) یعنی خود کو اللہ سے ڈرنے والے متقی یہودی کہلانے والے گروہ کے سربراہ نے حکومت اسرائیل کو دھمکی دی کہ اگر ہمیں اسرائیل نے فوجی سروس کے لے مجبور کیا تو ہم اسرائیل چھوڑ جائیں گے اور ہمارا اسرائیل نامی ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس پر اداریہ باندھتے ہوئے یروشلم پوسٹ نے لکھا کہ اسے محض دھمکی نہ سمجھا جائے یہ ایک سنگین رجحان ہے اور یہ اسرائیل کی افواج کی توہین ہے۔
لیکن اس سنگین رجحان کا شکار صرف متقی یہودیوں کا چیف نہیں ہوا۔ اسرائیل کی جنگی کابینہ کے دو اہم اراکین بھی اپنے وزیراعظم کے ساتھ ایک پیج، پر نہیں ہیں۔ ان پر پھر کسی دن بات کریں گے۔ سر دست اسی موضوع تک رہتے ہیں کہ اسرائیل فتح اور فلسطین شکست کی جانب بڑھ رہے ہیں بظاہر یہی کہا جا رہا ہے کہ چونکہ سارا غزہ تباہ ہو چکا ہے اور ہزاروں لاشے فلسطین کی ہتھیلی پر رکھے ہیں، عالمی برادری گونگی اور لاتعلق ہے اور مسلمان دنیا سہمی ہوئی ہے اس لیے یہ فلسطین کی غیر معمولی شکست ہے۔ لیکن ایسانہیں ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نظریے کی بنیاد پر مزاحمت کرنے والی قوتوں کی فتح اور شکست میدان جنگ کے نتائج سے بے نیازہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایسی مزاحمت میدان میں کچل دی جائے لیکن بعد میں یہی مزاحمت فتح کا استعارہ بن جائے۔
جنگ میں فتح و شکست کا تعین صرف نقصان کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ فرانس نے الجیریا میں قریب 10 سے 15 لاکھ مسلمان قتل کیے۔ الجیریا کی کل آبادی کا 15 فی صد شہید کر دیا گیا۔ نقصان ہی اگر فتح کے تعین کا واحد عامل ہوتا تو آج الجیریا پر فرانس کی حکومت ہونی چاہیے تھی۔ فرانس نے بھی یہی سمجھا تھا کہ جی بھر کر قتل عام کرنا ہی کامیابی ہے۔ لیکن کیا ہوا؟ فرانس کا تسلط ختم ہوا اور الجیریا آزاد ملک ہے۔ الجیریا ہی نہیں امریکن نیشنل کانگریس اور آئرش ری پبلکن آرمی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیئے۔ نظریے کی بنیاد پرہونے والی مزاحمت کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ جنگ کا اتار چڑھاو انہیں ختم نہیں کر سکتا۔ ڈیوڈ ہرسٹ ہی کے الفاظ مستعار لوں تو " حماس کوئی روایتی فوج نہیں ہے کہ میدان میں نقصان اسے ختم کر دے گا۔ یہ ایک تصور ہے۔ جو باقی رہتا ہے۔ کل پی ایل او تھی، آج حماس ہے۔ اہم یہ نہیں کہ مشعل کس کے ہاتھ میں ہے۔ اہم یہ ہے کہ مشعل ہاتھ میں ہے اور مشعل روشن ہے"۔
قتل عام سے ہی اگر فلسطینی مزاحمت نے ختم ہونا ہوتا تو یہ 1948 میں ہی ہوگئی تھی جب دہشت گرد صہیونی تنظیموں کو ایک ریاست بنا کر دی گئی اور انہوں نے ساتھ ہی مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ 7 لاکھ مسلمان گھر بار اور زمینوں سے نکال دیے گئے۔ دیر یاسین، پھر صابرہ پھر شتیلا، اور اب غزہ۔ ظلم بربریت کی یہ طویل داستان ہے لیکن کیا اس سے مز احمت ختم ہوئیَ؟ ہر گز نہیں۔ ہر بار مزاحمت میں پہلے سے زیادہ شدت آئی۔ غزہ کا رد عمل بھی آئے گا۔ یہ خدا کی سنت ہے۔
یہ مزاحمت پھیلے گی۔ جب دیر یاسین میں قتل عام ہوا تو اس کو محفوظ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اب تو ایک ایک چیز کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر دی ہے۔ اسرائیلی وحشت اور ظلم اپنی ساری جزئیات کے ساتھ ڈاکومنٹڈ ہو چکا ہے اور یہ اگلی نسلوں کی امانت ہے۔ لوگ اب سنیں گے نہیں نہ ہی کتابوں میں پڑھیں گے کہ کیا ہوا تھا، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ یہ ہوا تھا۔ ابلاغ کی دنیا پر اجارہ داری کی مدد سے جس طر یقے سے یہود کی مظلومیت کے بیانیے پر اسرائیل کی ناجائز ریاست کھڑی کی گئی ہو سکتا ہے یہ تازہ مظالم ڈاکومنٹڈ ہو کر اسی بیانیے کی نفی کردیں یا اس کے سامنے ایک متبادل بیانیہ کھڑا کر دیں کہ جو مبینہ مظلوم تھا وہ تو سب سے بڑا ظالم نکلا۔ مابعد الطبیعات بندوبست میں کیا کچھ ہو سکتا ہے، کون جانے؟
غزہ کو کچل بھی دیا گیا تو یہ مزاحمت ختم نہیں ہوگی۔ جتنے فلسطینی غزہ میں رہتے ہیں اس سے 3 گنا زیادہ فلسطینی اردن میں رہتے ہیں۔ اردن کے ساتھ شام کا بارڈر بھی ہے اور عراق کا بھی۔ یہاں مزاحمت پھیل سکتی ہے۔ یہ پھیلی تو اسرائیل کے لیے دنیا بہت مختلف ہوگی۔
یہ امکان بھی روشن تر ہے کہ یہ انسانی شعور کی مزاحمت میں بدلے۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ہونے والا مسلسل احتجاج خبر دے رہا ہے کہ تہہ خاک بہت سی تبدیلیاں انگڑائی لے رہی ہے۔ سوچوں کا رخ بدل بھی سکتا ہے۔ فلسطینی مزاحمت زندہ تھی، زندہ رہے گی۔ دنیا برفاب اور مطمئن قسم کا المورد۔۔ ، نہیں سکتی، یہاں اضطراب جدوجہد اور مزاحمت میں بدلتا ہے۔