ایک زمانہ تھا، پنجاب کے تعلیمی اداروں کے باہر لکھ کر لگایا گیا: آئیے دیکھیے ہم فروغ تعلیم کے لیے کس قدر کوشاں ہیں۔ اب جس طرح الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں جیسے اہم معاملے کو عجلت میں نبٹایا ہے بلکہ ٹرخایا ہے، اس کے بعد الیکشن کمیشن چاہے تو از رہ مروت اپنے دفاتر کے باہر لکھ کر لگا سکتا ہے کہ آئیے دیکھیے ہم الیکشن کرانے میں کس قدر کوشاں ہیں۔ الیکشن کمیشن کا ایک ہی کام ہوتا ہے، کبھی کبھار الیکشن کرانا، یہ کام وہ جس ہنر کاری سے کرواتا ہے وہ اچھے بھلے آدمی کو گدگدا دیتا ہے۔
قومی اسمبلی تحلیل ہوئی تو معاملہ سیدھا سا تھا کہ آئین میں دی گئی مدت کے مطابق الیکشن کرا دیے جائیں۔ اس وقت الیکشن کمیشن نے ہماری رہنمائی فرمائی کہ محض مدت ہی آئین کا تقاضا نہیں بلکہ کچھ اور عوامل بھی مد نظر رکھنا ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ ــ چونکہ سبک دوش ہونے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے 2023 کی ڈیجیٹل مرد م شماری کے نتائج منظور کر لیے ہیں، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس نئی مردم شماری کے مطابق سینکٹروں حلقوں کی از سر نو تشکیل یعنی نئی حلقہ بندی کا قانونی طور پر پابند ہے۔ جب تک یہ سارا کام نہیں ہوتا، الیکشن نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سرکاری طور پر شائع ہونے والی ہر مردم شماری کے بعد حلقہ بندی ہونا اس کی آئینی ذمہ داری ہے۔
الیکشن کمیشن سے جب الیکشن کی تاریخ کا مطالبہ کیاگیا، تو اس نے اسی حلقہ بندی کی بنیاد پر تاریخ دینے سے انکار کیا کہ اس نے ابھی بہت سارے انتظامات کرنے ہیں۔ اس نے تحریری طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ " آرٹیکل 218 ذیلی دفعہ 3 کے تحت مذکورہ انتظامات صرف ڈی آر اوز، آر اوز، اے آر اوز کی تقرری، اور بیلٹ پیپرز کی اشاعت کی محدود نہیں بلکہ ان میں آرٹیکل 219 کے اعتبار سے تازہ ترین انتخابی فہرستوں کی تیاری اور حلقہ بندی بھی شامل ہے"۔
الیکن کمیشن نے لکھا کہ " کمیشن یہ اختیار رکھتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے 2023ء میں باضابطہ طور پر شائع ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندی کرنا قانون کا لازمی تقاضا ہے، جو الیکشنز ایکٹ کی شق 17 میں درج ہے"۔
الیکشن کمیشن پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے جتنے بھی اعتراضات ہوئے کہ وہ الیکشن میں تاخیر کر رہا ہے، ان کے جواب میں الیکشن کمیشن نے اسی حلقہ بندی کے معاملے کو انتخابی عمل میں تاخیر کی بنیاد بنایا تھا۔ اور اب آکر وہی الیکشن کمیشن اسی حلقہ بندی کے معاملے کو ٹرخاتے ہوئے نبٹا رہا ہے تو میرے جیسا طالب علم سراپاسوال ہے کہ عالی جاہ آپ چاہتے کیا ہیں۔ اگر یہی کرنا تھا تو انتخابی عمل میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی اور نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کا فیصلہ ہی کیوں تسلیم کیا گیا؟ اور اگر الیکشن نئی مردم شماری کی بنیاد پر کرانا تھا تو حلقہ بندیوں کو ضروری اور مناسب توجہ کیوں نہ دی گئی؟
پہلے کہا گیا کہ حلقہ بندیوں کا کام 14 دسمبرتک مکمل ہو جائے گا۔ اس کے بعد یکم ستمبر کو نیا موقف سامنے آیا کہ حلقہ بندیاں 30 نومبر تک کر لی جائیں گی اور اب جب کہ ابھی ستمبر کا مہینہ چل رہا ہے، اچانک اعلان فرمایا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری فرما دی گئی اور الیکشن کمیشن نے اسمبلیوں کی موجودہ نشستیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوال یہی ہے کہ اگر نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کرانے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسمبلیں کی موجودہ نشستوں میں کوئی فرق نہ پڑے اور ان ہی کی بنیاد پر الیکشن کرائے جائیں۔ اور یہ کیا معاملہ ہے کہ کل تک حلقہ بندیاں اتنا اہم کام تھا کہ 14 دسمبر سے پہلے مکمل نہیں ہو سکتا تھا اور اب اچانک ستمبر میں قوم کو بتایا ہے کہ پیارے لوگو، الیکشن کمیشن بھائی جان نے حلقہ بندیاں مکمل کر لی ہیں۔
یعنی الیکشن کمیشن نہ ہوا مزاج یار ہوگیا، جی میں آئے تو ایک کام مہینوں پر پھیلا لیا اور جی میں آئے تو اسے دنوں میں مکمل فرمانے کا اعلان کر دیا۔ نہ اس کی تاخیر کسی کی سمجھ میں آ ئی نہ اس کی اچانک کی یہ عجلت کسی کو سمجھ آ رہی ہے۔
حلقہ بندیاں کوئی عام یا معمولی بات نہیں۔ یہ انتخابی عمل میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ ر کھتی ہیں۔ انتخابی عمل کا یہ اہم ترین پہلو ہے۔ حلقہ بندیاں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ پورے ملک میں حلقے کی تقسیم برابری کی بنیاد پر ہو اور کم از کم اور زیادہ سے زیادہ ایک حلقے کی آبادی کی اوسط حلقہ بندیوں کا بنیادی اصول ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ این اے 35 کے قومی اسمبلی کے حلقے کی آبادی گیارہ لاکھ سے زیادہ ہے جب کہ این اے 262 کے حلقے کی آبادی 38 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ تناسب حلقہ بندیوں کے بنیادی اصول سے انحراف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ این اے 35 کے تین ووٹ این اے 262 کے ایک ووٹ کے برابر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تناسب کا فرق انتخابی قوانین سے متصادم نہیں۔ اگر یہ متصادم ہے تو پھر کیا یہ ضروری نہ تھا کہ تمام حلقوں کا تفصیل سے از سر نو جائزہ لیا جاتا اور حلقہ بندیوں کا عمل توجہ سے اور اہتمام سے مکمل کیا جاتا۔
یعنی یا تو الیکشن کمیشن آئین میں طے شدہ مدت میں انتخابات کرا دیتا اور اس وقت کہتا کہ الیکشن ایکٹ کے وہ ضابطے جن میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے ہم انہیں کم وقت میں جلدی سے مکمل کر رہے ہیں تا کہ ہم آئینی مدت کے اندر انتخابات کرا سکیں۔ لیکن جب اس مدت سے بات آگے چلی گئی کہ دیگر انتظامات کرنے ہیں تو پھر ان دیگر انتظامات کو یوں عجلت میں نبٹانا یا ٹرخانا کیا ایک مناسب عمل ہے؟
حلقہ بندیوں جیسا سنجیدہ معاملہ شروع سے ہی بازیچہ اطفال بنا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پہلے دن سے ہم جیسوں کو یہ بتاتی پھرتی تھی کہ ہمیں ن لیگ نے ضمانت دی ہے کہ صوبائی سطح پر نئی حلقہ بندیاں ہوں گی لیکن قومی سطح پر نہیں ہو ں گی۔ سوال یہ ہے کہ جب نئی مردم شماری ہو چکی ہو تو نئی حلقہ بندیاں صرف صوبوں تک کیسے رہ سکتی تھیں اور دوسرا سوال یہ تھا کہ ایسی کوئی ضمانت مسلم لیگ ن کیسے دے سکتی تھی۔ یہ کام حکومت کا تھا ہی نہیں۔ یہ خالصتا الیکشن کمیشن کا کام تھا۔
یا تو الیکشن کمیشن پہلے دن یہی کہتا کہ پرانے بندوبست پر الیکشن کرا لیتے ہیں تا کہ یہ بروقت ہوسکے۔ جب اس نے یہ نہیں کہا اور تاخیر کی اور تاخیر کی بنیاد حلقہ بندیوں اور دیگر امور کو قرار دیا تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ حلقہ بندیوں جتنا اہم کام یوں سرسری انداز سے کر دیا جائے؟ حیرت سراپا سوال ہے۔