کیا واقعی عمران خان کی حکومت خطرے میں ہے؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ نہ صرف حکومت کا وجود خطرے میں ہے بلکہ ان خطرات کی نوعیت اتنی سنگین ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی بطور سیاسی جماعت، بقاء بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
دوسرا سوال اب یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو خطرہ کس سے ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ سا ہے۔ خطرہ عمران خان کو عمران خان سے، ان کے ناتراشیدہ وزراء سے اور سوشل میڈیا کے اپنے شعلہ بیان جنگجوئوں سے ہے۔ جس کھیت کو اس کی اپنی باڑ ہی کھانا شروع کر دے، اسے دشمنوں کی کیا حاجت؟
عمران خان محض ایک وزیر اعظم نہیں تھے، ان کے وجود سے لپٹے کتنے ہی خواب تھے جو حدت دے رہے تھے۔ عشاق کا اب عالم یہ ہے کہ منہ کی زردی اب چشمِ نم پر چھا چکی ہے۔ عمران سے لوگوں نے مانگا ہی کیا تھا؟ بس تھوڑا سا احساس اور ذرا سا درد دل، افسوس عمران کے پاس لوگوں کو دینے کے لیے یہ بھی نہ نکلا۔ کسی نے نہیں کہا تھا کہ عمران آئے گا تو ستر سال کا گند ایک لمحے میں صاف کر دے گا۔ لوگوں نے صرف اتنا چاہا تھا کہ عمران آئے گا تو احساس اور درد دل کے ساتھ ایک بنیاد رکھ جائے گا۔ ایک سمت دے جائے گا۔ بطور وزیر اعظم عمران خان کی پہلی تقریر اسی احساس اور اسی درد دل میں لپٹی تھی۔ افسوس اس تقریر کے ساتھ ہی خلق خدا کے لیے عمران خان گمشدہ ہو گیا۔
زخموں پر مرہم رکھنے اور جھلستے سماج کو دو پل کی چھائوں دینے کی بجائے تجاوزات کے خلاف مہم کے نام پر وہ اودھم مچا کہ گھروں کے ملبے پر مائوں نے جھولی اٹھا اٹھا بد دعائیں دی۔ لوگوں کے ہنستے بستے کاروبار اجڑ گئے۔ یوں لگا بستی میں منگول آ گئے ہیں۔ قانون کا نہیں یہ حکمت اور ترجیحات کا معاملہ تھا۔ بے نیاز حکومت نے لاٹھی سے سماج کی کمر لال اور ہری کر دی۔ یہ ابتدائے عشق تھا اور اس کے بعد جو ہوا سب نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔ کیا معلوم کسی ماں کی بد دعا کا آسیب اس حکومت کے تعاقب میں ہو؟ کہیں کوئی چیز حکومت کی گرفت میں نہیں ہے۔ بس اب غلطی ہائے مضامین ہے اور تضادات کا بوجھ۔ معاملہ اب یہ نہیں کہ منزل نہیں مل رہی، معاملہ یہ ہے کہ کوئی سمت ہی نہیں، نے ہاتھ پاگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔
بھلی سی ایک شام تھی۔ اہل قلم کے ساتھ تحریک انصاف کے دفتر میں عمران خان نے نشست رکھی۔ ان دنوں لوگ دھڑا دھڑ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے۔ میں نے اس پر اعتراض کیا تو عمران نے کہا : میں کسی کو پارٹی میں آنے سے کیسے روک سکتا ہوں لیکن یاد رکھنا ٹکٹ اس کو ملے گا جس کا چہرہ پارٹی کے نظریاتی چہرے سے ملتا ہو۔ ٹکٹوں کی باری آئی تو ایسا لنگر سجا، دال جوتوں میں بٹنے لگی۔ انہی دنوں سر راہ موقع ملا تو عمران کو ان کا وعدہ یاد دلایا۔ جواب ملا: ٹکٹ دینا مجبوری ہے لیکن تم دیکھنا کابینہ میں وہی ہوں گے جو نظریاتی لوگ ہیں۔ اب کابینہ کو دیکھیں تو عمران کی باتیں یاد آتی ہیں: اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی۔ بطور وزیر اعظم عمران خان نے خود سے جڑے خوابوں کو پامال کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ وہ اب برف کا ایک باٹ ہیں جو دھوپ میں پڑا ہے۔ درد بڑھ جاتا ہے تو کرسٹو فر مارلو کا ڈاکٹر فاسٹس یاد آتا ہے اور فاسٹس یاد آتا ہے پروین شاکر یاد آتی ہیں : ہم سب ڈاکٹر فاسٹس ہیں۔
عمران خان کی کابینہ بھی اوراق مصور ہیں۔ عمران کی فصیلوں میں ریت بھرنے کے سوا انہیں کوئی کام نہیں آتا۔ جس شخص کی ایسی کابینہ ہو اسے حزب اختلاف یا کسی دشمن کی کیا حاجت؟ یہ ایسے رجال کار ہیں جو دنیا کی ہر زبان میں بد مزگی پیدا کر سکتے ہیں لیکن چپ یہ کسی زبان میں نہیں رہ سکتے۔ ان کے ارشادات کو جمع کر لیا جائے تو ملا نصیر الدین کے لطائف اپنی کشش کھو دیں۔ عمران کو معلوم ہونا چاہیے تھا اس کے ووٹرز میں جواں لہو بھلے زیادہ ہو لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو معقول بات سننا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ شائستگی اور وقار سے بات کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزراء کی شعلہ بیانیوں سے لوگ بے زار ہوئے پڑے ہیں۔ آپ کب تک دوسروں کی تذلیل اور تضحیک سے اپنی فرد عمل سنوار سکتے ہیں؟ اخلاقی زوال کا یہ عالم ہے کہ وزراء باہم الجھ پڑیں تو ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ الامان۔ کیا عمران خان کو کچھ خبر نہیں کہ سیاست میں اخلاقی برتری کا بھی غیر محسوس مگر غیر معمولی مقام ہوتا ہے۔ کیا کابینہ میں کوئی دو چار لوگ بھی ایسے نہیں شامل کیے جا سکتے تھے جودھیمے لہجے میں بات کر سکیں؟ کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جانا کون سی دلاوری ہے؟ لوگ اس رویے سے اکتا چکے ہیں۔
ترک تازی میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ سوشل میڈیا کے جنگجوئوں نے پوری کر دی۔ معاملہ فہمی ہے نہ ٹھہرائو، بس جنون ہی جنون ہے۔ سر شام میدان اب اس کے نام رہتا ہے جس کے ہاتھوں میں تار تار دامن کی دھجیاں سب سے زیادہ ہوں۔ معلوم نہیں ان میں نظریاتی کتنے ہیں اور تنخواہ دار کتنے لیکن تذلیل بکف ہو کر جس طرح انہوں نے ناقدین کی صفیں درہم برہم کی ہیں، اس سے لطف تو سبھی لے رہے ہیں لیکن اس کے آزار کا کسی کو اندازہ نہیں۔ یہ رویہ صرف آپ کے مخالفین میں اضافہ کر رہا ہے۔ تند خو مزاج کے لوگ تو مزے میں ہیں کہ فلاں کی ایسی کر دی اور فلاں نا ہنجار بولا تو اس کی تیسی کر دی لیکن یاد رکھیے سماج میں ووٹ صرف ایسی اور تیسی کرنے کی مہارت پر نہیں ملتا۔ سماج ایسے رویوں کو اگل دیتا ہے۔ کتنے ہی لوگوں کو جانتا ہوں جو عمران کے خیر خواہ ہیں یا ناقد ہیں تو تعصب اور نفرت کی حد تک نہیں ہیں لیکن سوشل میڈیا کے تجربات نے ان میں رد عمل کا زہر بھر دیا ہے۔ اس رد عمل کا بوجھ عمران خان کو اٹھانا پڑے گا۔ کاش کسی نے اس پہلو پر بھی سوچا ہوتا۔
اپوزیشن کے دنوں میں تندی اور تلخی گوارا کی جا سکتی لیکن اقتدار متانت اور ذمہ داری کا نام ہے۔ اقتدار میں بھی یہ تندی ختم نہ ہو اور سر بلندی کا معیار تلخ کلامی اور تذلیل اور تضحیک میں مہارت ہو تو یہ رویہ پورس کے ہاتھی کی طرح واپس لوٹتا ہے اور اپنی ہی صفوں کو روند دیتا ہے۔ یا تو آپ اخلاقی طور پر اتنے برتر ہوں کہ دور دور تک آپ کا کوئی مقابل نہ ہو، پھر تو لہجوں کا یہ آزار آپ کا تقوی سمجھ کر گوارا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کابینہ کے رنگِ صحبت میں تو ایسا کچھ بھی نہیں کہ پارسائی یا اخلاقی برتری کا کوئی دعوی کیا جا سکے۔ پھر یہ بے ادائیاں کیسی؟
عمران خان کی حکومت خطرے میں ہے لیکن یہ خطرہ اسے حزب اختلاف سے نہیں، اپنی صفوں کے زباں بکف جنگجوئوں کے لہجوں کے آزار سے ہے۔