مشرقی یروشلم اور مسجد اقصی سمیت فلسطین کے ایک غالب علاقے پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر، 181 194، 2252 اور سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 242، 672 اور2334 اس قبضے کو ناجائز قرار دے چکی ہیں۔ یہ قبضہ Armistice Agreement اور چوتھے جنیوا کنونش کی بھی خلاف ورزی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے وہاں اسرائیلی کالونیاں قائم کرنا بھی غیر قانونی ہے۔ ہیگ ریزولیوشن کے تحت یہ ناجائز ہے اورانٹر نیشنل کرمینل کورٹ اور روم سٹیچوٹ کے مطابق یہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ اس سب کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا انٹر نیشنل لاء فلسطینیوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اسرائیل کے اس قبضے کے خلاف مزاحمت یا مسلح جدوجہد کریں؟
جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 37/ 43 میں اسی سوال کا بڑا واضح انداز سے جواب دیا گیا ہے۔ اس قرارداد کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں گھما پھرا کر کسی مفروضے کی بنیاد پر کوئی اصولی بات نہیں کی گئی کہ فرض کریں کسی ملک پر کوئی قابض ہو جاتا ہے تو کیا مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو مسلح جدوجہد کی اجازت ہو گی یا نہیں بلکہ اس قرارداد میں سیدھی سی بات کی گئی کہ کیا فلسطینیوں کو اسرائیل کے ناجائزقبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی اجازت ہے یا نہیں اور پھر اس کا جواب دیا گیا ہے کہ انہیں اس بات کی اجازت ہے۔ اس قرارداد کے ابتدائیے میں اس کی شان نزول میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے چند پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
1۔ کہا گیا کہ یہ قرارداد ہم فلسطین پر لائی گئی اپنی پہلی چار قراردادوں کی تذکیر میں لا رہے ہیں۔
2۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ اس موقع پر ہمارے ذہن میں یہ ات بھی موجود ہے کہ فلسطینیوں کا حق خودارادیت، اس کی آزادی، اس کی حاکمیت اعلی، اور فلسطینیوں کا مقبوضہ علاقوں میں واپس لوٹنے کا حق نا قابل تنسیخ ہے۔ کوئی قانون اور کوئی ضابطہ اس حق کی نفی نہیں کر سکتا۔
3۔ تیسرے مرحلے میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا کہ فلسطینیوں کے یہ سارے ناقابل تنسیخ حق ان سے چھینے جا چکے ہیں۔
4۔ چوتھی بات یہ کہی گئی کہ اسرائیل کی جانب سے ان حقوق کی نفی اور مسلسل جارحیت عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
5۔ پانچویں بات یہ کی گئی کہ اسرائیلی جارحیت سے جنرل اسمبلی صدمے کی کیفیت کا شکار ہے۔
6۔ چھٹا نکتہ یہ طے کیا گیا کہ جنرل اسمبلی فلسطین کی آزادی، سلامتی، سالمیت، جغرافیائی اور قومی وحدت اور حاکمیت اعلی کو کسی بیرونی مداخلت کے بغیر تسلیم اور قبول کرتی ہے اور اس کی ایک بار پھر تصدیق کرتی ہے۔ اس ابتدائیے کے بعد جنرل اسمبلی نے جو قرارداد منظور کی اس کا یہ پیرا پڑھ لیجیے۔ لکھا ہے:
Reaffirms the legitimacy of the struggle of peoples for independence، territorial integrity، national unity and liberation from colonial and foreign domination and foreign occupation by all available means، including armed struggle.
یعنی جنرل اسمبلی نے قرار دیاکہ غیر ملکی تسلط اور قبضے کے خلاف آزادی کے حصول کیلئے ہر دستیاب طریقے سے جدوجہد کی اجازت ہو گی اور اس میں مسلح جدوجہد شامل ہے۔
یہاں دو چیزیں بہت اہم ہیں۔ ایک reaffirm کا لفظ، یعنی یہ اصول اب پہلی بار طے نہیں ہو رہا تھا بلکہ اس اصول کی دوبارہ تصدیق ہو رہی تھی۔ دوسرا by all available means کے بعد including armed struggle کے الفاظ۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔
یہ اصول اصل میں جنرل اسمبلی اس سے پہلے اپنی قرارداد نمبر 3314 میں طے کر چکی تھی کہ غاصب اور قابض فوج کے خلاف حق خود ارادیت کیلئے مسلح جدوجہد جائزتصور کی جائے گی۔ قریب قریب یہی بات جنیوا کنونش کے ایڈیشنل پروٹوکول 1 کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میں بھی بیان کی جا چکی تھی اس لیے جب یہاں یہ بات کی گئی تو Reaffirm کا لفظ استعمال ہوا۔ یعنی یہ کوئی نئی بات یا نیا اصول طے نہیں کیا گیا بلکہ پہلے سے موجود اصول کی ایک بار پھر تصدیق کی گئی۔
یہاں پر including armed struggle کے الفاظ کیوں استعمال کرنا پڑے؟ قرارداد 3314 میں کہا گیا تھا کہ جو جدوجہد حق خود ارادیت اور آزادی کے لیے ہو گی اسے جارحیت نہیں کہا جائے گا۔ تو اسرائیل اور اس کے حامیوں نے اس کی تشریح یہ کی کہ اس جدوجہد سے مراد جمہوری جدوجہد ہے اور اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کو مسلح جدوجہد کی اجازت دے دی ہے۔ اسرائیل کا موقف ناقص تھا کیونکہ اگر بات جمہوری اور سیاسی جدوجہد کی ہوتی تو اقوام متحدہ کو یہ واضح کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ اسے جارحیت قرار نہیں دیا جائے گا۔ یہ مسلح جدوجہد ہی تھی جس کے بارے میں وضاحت کی گئی کہ اگر وہ حق خود ارادیت یا آزادی کے لیے غاصب کے خلاف ہو گی تو اسے جارحیت نہیں کہا جائے گا۔ تاہم جنرل اسمبلی نے اس قرارداد میں یہ مناسب سمجھا کہ اس نکتے کی مزید تشریح کر دی جائے تاکہ کسی کو تاویل اور بہانے کی گنجائش ہی نہ رہے۔ اس لیے by all available means، including armed struggle لکھ دیا گیا۔ یوں گویا یہ بات کسی شک و شبہے کے بغیر اسرائیل کو بتا دی گئی کہ جس جدوجہد کا جنرل اسمبلی نے سابقہ قرارداد میں ذکر کیا تھا اس میں مسلح جدو جہد بھی شامل ہو تھی۔ اور چونکہ یہ بات پہلے ہی شامل تھی اس لیے اسے reaffirm کیا گیا۔ کوئی نیا اصول وضع نہیں کیا گیا۔ پہلے سے موجود اصول کی دوبارہ تصدیق کی گئی۔
اب گویا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ان دو قراردادوں کا حاصل دو چیزیں ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں قابض اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کو اپنی آزادی اورحق خود ارادیت کیلئے تمام دستیاب ذرائع کے ساتھ ہر طرح کی جدوجہد کا حق ہو گا اور اس حق میں مسلح جدوجہد بھی شامل ہو گی۔ دوسری یہ کہ فلسطینیوں کی ایسی مسلح جدوجہد کو جارحیت نہیں کہا جائیگا۔