انتخابات کی آمد آمد ہے۔ بنیادی اور اہم سوالات یہ ہے کہ کیا یہ اس ہیجان اور انتشار کا خاتمہ کر پائیں گے، جسے تحریک انصاف نے انسٹی ٹیوشنلائز کیا اور جو اس معاشرے کے وجود سے لپٹ چکے ہیں؟
سیاست کیا ہے؟ بند گلی سے راستے نکالنے کا نام ہے۔ یہاں کوئی بھی خامیوں سے پاک نہیں ہوتا۔ نہ یہاں کوئی شیطان ہوتا ہے نہ یہاں کوئی ہیرو ہوتا ہے۔ صحت مندانہ رویہ یہی ہوتا ہے کہ ہر فرد گروہ یا جماعت کی پالیسیوں کو دیکھا جائے اور جب جہاں جس کی پالیسی اچھی لگے اس کا ساتھ دیا جائے۔ سیاسی کارکنان کی حد تک اس بات کو یوں سمجھ لیجیے کہ مجموعی طور پر جس جماعت میں خیر نظر آئے اس کا ساتھ دیا جائے۔
تحریک انصاف نے اس طرز فکر کو بدل دیا۔ چیزیں پہلے بھی کوئی مثالی نہیں تھیں کہ تحریک انصاف نے اس قباحت کا انسٹی ٹیوشنلائز کیا اور اس کے نتیجے میں معاشرے کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔
تحریک انصاف نے سیاست کو ایک ایک کلٹ، بنا دیا۔ اصول اور دلیل کی اسے حاجت نہیں تھی۔ عمران خان کے کسی فیصلے کی صحت کا تعین کسی دلیل، اخلاقیات اور قانون کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ دلیل اخلاقیات اور قانون اب اس بات کے محتاج ہیں کہ عمران خان کے معیار پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ حق اور باطل کا تعین اب صرف اس سے ہونے لگاکہ عمران کس طرف کھڑے ہیں۔ جو ان کی مخالف صف میں کھڑا ہوتا، یہ اس کے کرپٹ اور بے ایمان ہونے کی دلیل سمجھی جاتی۔
فارن فنڈنگ کیس سے لے کر توشہ خانے کے تحائف تک، سوالات کے بوجھ سے ان کی کمر دہری ہوئی پڑی ہے لیکن اس کے باوجود بیانیہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں اور اکیلا عمران خان دیانت دار ہے۔
جو عمران کا مخالف ہے وہ کرپٹ ہے، خائن ہے، ملک دشمن ہے، امریکی ایجنٹ ہے چنانچہ اس وقت عمران خان اور ان کے اتحادیوں کے علاوہ سب غدار ہیں۔ ان سے ملک کو خطرہ ہے۔ اوور سیز تحریک انصاف کے نعرے سنیں تو یہ کلٹ اور یہ فرقہ واریت مزید عیاں ہو جاتی ہے۔ عمران نہیں ہے تو رمیٹنس، بھی نہیں ہے۔ گویا رمیٹینسز، یہ اپنے اہل خانہ کی بجائے اپنی ساری آبائی یونین کونسل کو بھیجتے ہیں جو اب نہیں بھیجیں گے۔ وفاداری کا مرکز اب فرد واحد ہوگیا جو اس سے اختلاف کی جسارت کرتا وہ فرد ہو یا ادارہ، کسی کو امان نہیں ملتا۔ اس جنون اور وحشت کا نکتہ عروج 9 مئی تھا۔
پوسٹ ٹروتھ کا ابلاغ اور پروپیگنڈا اس بے نیازی سے کیا گیا کہ گوئبلز بھی آ جائے تو ان کا جھوٹا تبرک سمجھ کر پی جائے۔ معروف شخصیات کا سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا کر اپنے قصیدے بیان کیے گئے یہاں تک کہ علی گیلانی جیسی بڑی شخصیت بھی ان سے محفوظ نہ رہی۔
سیاست کسی اصول پر کھڑی ہو تو یہ ایک شعوری سفرمیں ڈھل جاتی ہے۔ لیکن سیاست جب اصول، ضابطے سے بے نیاز ہو جائے تو محض ابن الوقتی کہلاتی ہے۔ اس خرابی سے کسی کا دامن صاف نہیں۔ البتہ اس آزار کے ساتھ جب یہ دعوی بھی ہو کہ معیار حق صرف ہمارا قافلہ ہے اور ہمارے علاوہ سب کرپٹ، خائن اور چور ہیں اور اس وقت تک چور ہیں جب تک وہ ہمارے قافلے میں شامل ہو کر اپنے درجات بلند نہیں کروا لیتے تو پھر سیاست ایک کلٹ بن کر رہ جاتی ہے۔
کلٹ کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں ہمارے قائد کو کسی اصول ضابطے پر نہ پرکھا جائے بلکہ ہر اصول اور ہر ضابطہ ہمارے قائد محترم کی فکر پر پرکھا جائے گا۔ جو قائد نے کہہ دیا وہی اصول ہے، وہی حق ہے اور وہی حرف آخر ہے۔ قائد کسی کو ڈاکو کہہ دے یا منصب عطا فرما دے، یہ اس کی جنبش ابرو کا اعجاز ہے۔
ان کی سیاست پہلے روز سے حقیقت کی بجائے مفروضوں پر کھڑی ہے۔ ان کی اس خوبی اور مہارت کی البتہ داد دینی چاہے کہ وہ ایک مفروضہ تیار کرتے ہیں اور پھر پروپیگنڈے کی غیر معمولی قوت سے وہ اسے سچ ثابت کر دیتے ہیں۔ تبدیلی کا یہ سارا سفر پوسٹ ٹروتھ کے سراب کے سوا کچھ نہیں۔
داخلی سیاست کے لیے ریاست کے مفادات داؤ پر لگا دیے گئے ہیں، اقتدار کی طوالت کے لیے آئین کو خاطر میں نہیں لایا گیا، گورنر اور صدر جیسے آئینی مناصب کو حلف سے انکار کرکے سیاسی آلود گی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ گاہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کے علاوہ مزاجِ یار کو کچھ بھی راس نہیں آتا۔
اصل مسئلہ اب انتخابات نہیں بلکہ اس نوجوان نسل کی ڈی بریفنگ، ہے جسے دلیل اور کارکردگی کی بجائے رومان نفرت اور جنون کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس کا کل زاد راہ چند اقوال زریں اور ڈھائی درجن گالیاں ہیں۔ ان کے خیال میں معلوم انسانی تاریخ کا آغاز بانوے کے ورلڈ کپ سے ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی ایسی خوبی نہیں جو ان کے رہنما میں موجود نہ ہو۔
پاپولزم کی سیاست میں ہیرو کو مارکیٹ کیا جاتا ہے۔ مٹی کا ایک پتلا تراشا جاتا ہے اور پھر اسے سپر ہیرو قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسے برانڈ بنایا جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا کو یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ چی گویرا سے لینن تک ان کرداروں کا کوئی اور روپ بھی تھا اور ان کے فکرو عمل نے انسانیت کو کتنے گھاؤ دیے۔ وہ جنون میں صرف اس برانڈ پر مر مٹتے ہیں۔ دلیل اور حقائق سے بے نیاز ہو کر ہیرو ورشپ کے لیے پوسٹ ٹروتھ تراشا جاتا ہے۔ انقلابی گروہوں کی طرح اپنے وابستگان کو نفرت اور ہیجان سے بھر دیا جاتا ہے تا کہ وہ اسی جنون کے زیر اثر رہیں اور معاملات کا معروضیت اور معقولیت سے تجزیہ نہ کر سکیں۔
یہ انتخاباات اگر ملک کو اس ہیجان سے نکال سکیں اور معاشرے کو اعتدال کی جانب واپس لا سکیں تو یہ بہت بڑا کام ہوگا لیکن اگر رد عمل میں متبادل کلٹ وجود میں آنا شروع ہو گئے اور دیگر جماعتوں نے بھی اسی اندھے رستے پر چلنے کا فیصلہ کر لیا تو یہ اانتخابات ایک آزار کے سوا کچھ نہیں ہوں گے۔
نفرت ہیجان کی سیاست کا خاتمہ ہونا بہت ضروری ہے۔ یہاں کسی بھی جماعت میں کوئی ہیرو نہیں، نہ ہی کوئی زیرو ہے۔ سب میں کچھ خوبیاں ہیں اور سب میں کچھ خامیاں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی ایک سیاسی رہنما نیکی کا مجسمہ ہے اور اس کے سارے حلیف چور ہیں۔ اعتدال کے ساتھ معاملات کو سمجھنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ بھاری پتھر ہے جو سب نے مل کر اٹھانا ہے۔ اگر تحریک انصاف اپنی اسی روش پر چلتی ہے یا اس کے رد عمل میں دیگر بھی یہی روش اختیار کر لیتے ہیں تو الیکشن کے نتیجے میں ایک نیا عذاب معاشرے پر مسلط ہوگا۔ لیکن اگر یہ بات سمجھ لی گئی کہ ا نتشار نفرت ہیجان اور فتنہ گری سے سیاست نہیں ہوتی، صرف تخریب ہوتی ہے تو اس میں ساری قوم کا بھلا ہوگا۔