اسلام آباد کا وارث کون ہے؟ کیا یہ ایک یتیم اور لاوارث شہر ہے؟ اسلام آباد کے تین ایم این اے ہیں۔ تینوں کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔ ان میں سے ایک وزیر ہے اور ایک وزیر اعظم کا مشیر برائے سی ڈی اے۔ خود وزیر اعظم بھی عام انتخابات میں اسی حلقے سے جیتے تھے۔ یہاں بلدیاتی حکومت بھی موجود ہے۔ ایک میئر اور ضرورت سے کچھ زیادہ ڈپٹی میئرز بھی موجود ہیں۔ سی ڈی اے نام کا ایک ادارہ بھی ہے جس میں 14 ہزار 4 سو 10 ملازمین کام کر رہے ہیں لیکن اسلام آباد شہر پر توجہ دینے کا کوئی بھی رودار نہیں۔ شہر کی حالت دیکھیں تو یہی سوال دامن گیر ہو جاتا ہے: اس کا وارث کون ہے؟ کیا یہ ایک لاوارث شہر ہے؟
راجہ خرم نواز صاحب، اللہ کی بے نیازی ہے، شہر اقتدار کے ایم این اے ہیں۔ چک شہزاد سے نیلور کی طرف مڑتے ہی سڑک کے دونوں اطراف بہت بڑی مارکیٹس کے سامنے غلاظت اور کوڑے کے ڈھیر آپ کو خبر دیتے ہیں کہ معزز رکن قومی اسمبلی کے علاقے میں آپ داخل ہو چکے۔ تھوڑا آگے ہی ان کا گھر ہے اور کم و بیش ایک کلومیٹر تک بکھری یہ گندگی اور غلاظت گویا ان کی دہلیز پر ان کی گڈ گورننس کا نوحہ پڑھ رہی ہیں۔ بھٹو نے کہا تھا : میں کھمبا بھی کھڑا کر دوں تو وہ جیت جائے۔ عمران خان نے یہ کر دکھایا۔ انہوں نے سمجھیے ایک کھمبا ہی کھڑا کیا اور وہ جیت گیا۔ کھسیانی بلی تو ہمت کر کے کھمبا نوچ لیا کرتی تھی، ووٹرز یہ بھی نہیں کر پا رہے۔
اسد عمر صاحب کراچی سے لا کر ایم این اے بنا دیے گئے۔ صاحب اسلام آباد کے شہریوں کو اور اسلام آباد کے شہری موصوف کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا موصوف معیشت کو جانتے ہیں۔ روایت ہے کہ کورونا سے پہلے بھی صاحب کسی عام آدمی سے مل لیتے تھے تو بیس سیکنڈ صابن سے ہاتھ ضرور دھوتے تھے۔ صاحب سے کون ملے اور کہاں ملے اور کیسے دکھڑا سنائے کہ اسلام آباد کا کیا حشر ہو چکا۔ بھلے وقتوں میں اپنی شیریں گرفتاری سے انہوں نے ایسا تاثر قائم کر رکھا تھا کہ وہی تحریک انصاف کے مارٹن لوتھر تھے اور وہی نیلسن منڈیلا۔ کچا رنگ بھی دو برساتیں نکال جاتا ہے، صاحب تو پہلی ہی رم جھم میں آشکار ہو گئے۔ اب روز ان کے دعوے انہیں گدگدانے آجاتے ہیں : یہ ہوا تو اسد عمر پارٹی میں نہیں رہے گا۔ سٹیل مل والو تم بھی لکھ لو، بھلے ویڈیو بنا لو، تمہیں ملازمت سے نکالا گیا تو اسد عمر پارٹی چھوڑ دے گا۔ لوگو تم یہ یہ ویڈیو سنبھال کر رکھنا تا کہ اسد عمر مکرنے نہ پائے، تحریک انصاف حکومت میں آ گئی اور اتنے ماہ میں تبدیلی نہ آ سکی تو اسد عمر پارٹی چھوڑ دے گا۔۔ جان ادا کی طرح صاحب ایسے کھلے ایسے کھلے؟
علی اعوان کا معاملہ البتہ مختلف تھا۔ پارٹی کے دیرینہ کارکن، متحرک اور نیک نام۔ شروع شروع میں خاصے فعال تھے مگر اب عرصہ ہوا ان کی کوئی خبر نہیں۔ کورونا سے بہت پہلے ہی شاید آئسولیشن میں جا چکے۔ عمران خان کو تو پھر ان کی اہلیہ محترمہ بتا دیتی ہیں کہ آپ وزیر اعظم ہیں، علی کو تو شاید ہماری بھابھی نے بھی کبھی نہیں یاد دلایا کہ آپ وزیر اعظم کے مشیر ہو۔ علی وہ واحد ایم این اے تھا جو لوگوں میں سے تھا، لوگوں جیسا تھا، ان کے مسائل کو سمجھتا تھا، اب لوگ تصور جاناں کیے بیٹھے ہیں لیکن علی اعوان کی کوئی خبر نہیں۔
اسلام آباد میں ایک میئر صاحب بھی ہیں۔ معلوم نہیں کن نصابی یا ہم نصابی سرگرمیوں کی بنیاد پر نواز شریف نے انہیں میئر بنا دیا لیکن روایت ہے وہ اپنے کونسلر کو نہیں پہچان پاتے۔ مقبولیت کا یہ عالم ہے گھر یا دفتر سے نکل کر سڑک پر آئیں تو علاقہ غیر شروع ہو جائے۔ ذوق کا عالم یہ ہے کوڑے کے ٹرکوں کے پیچھے " میئر آف اسلام آباد" لکھوا رہا ہے۔ دیکھنے والے کو ایک لمحے سمجھ نہیں آتی ٹرک جا رہا ہے یا میئر صاحب رواں دواں ہیں۔"ووٹ کو عزت دو " کے قوالوں نے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن اسلام آباد کے نیک نام سیکرٹری جنرل ملک شجاع کو ٹکٹ تک نہیں دیا حالانکہ مسلم لیگ کے دستوری نظام میں اسلام آباد کا سیکرٹری جنرل پروٹوکول میں کسی صوبے کے سیکرٹری جنرل کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔ سیکرٹری جنرل کو شاید ہریسہ بنانا نہیں آتا تھا یا ہم نصابی اور غیر نصابی خدمات بجا لانے کے فن سے نا آشنا تھے۔ وہ ٹکٹ سے بھی محروم رہ گئے اور ایک اجنبی شہر پر میئر بنا کر مسلط کر دیا گیا تاکہ سند رہے کہ ووٹ کو عزت کیسے دی جاتی ہے۔ اب ایک تماشا لگا ہے۔ حکومت کو ن لیگ کا میئر پسند نہیں۔ پنجاب کی طرح یہاں کی بلدیاتی حکومت کا آملیٹ بنانے کی کوشش کی گئی تو میئر عدالت چلے گئے عدالت نے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔ میئر بحال ہو گئے۔ حکومت نے پھر انہیں معطل کر دیا۔ عدالت نے پھر بحال کر دیا۔ حکومت کارروائی تو ڈال دیتی ہے عدالت میں اس کے پاس ڈھنگ کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ کھیل جاری ہے۔ دیکھیے میئر صاحب پھر کب معطل ہوتے ہیں۔
کھچڑی پکی پڑی ہے۔ مقامی حکومت تو موجود ہے لیکن اس کے پاس بجٹ نہیں ہے۔ بجٹ سی ڈی اے کے پاس ہے اور سی ڈی اے میئر کے ماتحت ہی نہیں۔ مقامی حکومت کہتی ہے وفاقی حکومت نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور سی ڈی اے کا چیئر مین تو ویسے ہی مغل اعظم ہوتا ہے۔ کس شہری کی مجال اس سے کوئی سوال کر سکے۔ سی ڈی اے کے پاس ڈیڑھ ہزار کے قریب ملازمین ہیں۔ سپریم کورٹ بار بار سوال کرتی ہے یہ ہزاروں ملازمین کرتے کیا ہیں۔ جواب کسی کے پاس نہیں۔ ایک ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے " کارروائی کر ٹوئٹر پر ڈال" ہی بہترین حکمت عملی ہے۔ چنانچہ ٹوئٹر پر انہوں نے اسلام آباد کا حلیہ بدل دیا ہے۔ زمین پر کیا ہو رہا ہے لاٹ صاحب کی جانے بلا۔ مغلوں کے محل میں حرم سرا میں سانپ گھس آیا، کنیزیں چلانے لگیں : کسی مرد کو بلائو۔ ایک شہزادہ پاس کھڑا تھا وہ بھی چلانے لگا: کسی مرد کو بلائو۔ کورونا پھیل رہا ہے اور اسلام آباد کے ایم این ایز، میئر اور انتظامیہ، سب چلا رہے ہیں : کسی مرد کو بلائو۔