بعض سیانے ہمیں سمجھانے آ رہے ہیں کہ اسرائیل مشرق وسطی کی واحد جمہوری ریاست ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ اسرائیل جمہوری نہیں نسلی امتیاز پر مبنی ایک متعصب ریاست ہے۔ گلوبل ولیج میں جہاں ابلاغ کی دنیا میں انقلاب آ چکا ہے، اب اس حقیقت کو چھپانا ممکن نہیں رہا۔ ہو سکتا ہے مجھے ذرا دور کی سوجھ رہی ہو لیکن مغرب اور امریکی سماج میں اس نقاب کشائی، کا منطقی نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ خود امریکی قیاست کے لیے ماضی کی طرح اسرائیل کی سرپرستی کرنا ممکن نہ رہے۔ اسرائیل کے پاس ایک حصہ وہ ہے جو جنرل اسمبلی کی قرارداد کے نتیجے میں قائم ہوا لیکن اس سے قریب 68 فیصد زیادہ علاقہ وہ ہے جہاں وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے ناجائز طور پر قابض ہے۔ اسے OPT یعنی فلسطینی مقبوضہ جات کہا جاتا ہے۔ ان میں مشرقی یروشلم اور اس سے جڑا ویسٹ بنک اور غزہ ہے۔ قریب تیس لاکھ فلسطینی مغربی کنارے پر رہتے ہیں اور بیس لاکھ کے قریب فلسطینی غزہ میں آباد ہیں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہاں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم ہے اور جیسا تیسا بھی ہے، ایک الگ نظم موجود ہے۔ حقیقت مگر اس سے مختلف ہے۔
مقبوضہ جات میں کہنے کو تو فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے لیکن یہاں اسرائیل نے زوننگ کر رکھی ہے اور سارا علاقہ زون اے، زون بی اور زون سی میں تقسیم ہے۔ زون اے پر فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ہے۔ زون بی پر مشترکہ کنٹرول ہے اور زون سی مکمل طور پر اسرائیل کی انتظامی عملداری میں ہے۔ سب سے ز یادہ رقبہ زون سی میں ہے۔ ویسٹ بنک کا 60 فیصد رقبہ زون سی قرار دیا جا چکا ہے۔ ویسٹ بنک میں اسرائیل نے 24 لاکھ ڈنم زمین ضبط کر رکھی ہے۔ آسان تفہیم کے لیے عرض کر دوں کہ ہزار ڈنم کا ایک کلومیٹر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر فلسطینیوں کو " غیر حاضر " قرار دے کر یا علاقے کو کلوزڈ ملٹری زون قرار دیکر اسرائیل نے فلسطینیوں کی 52 لاکھ ڈنم زمین ضبط کر رکھی ہے۔ جن کے خیال میں اسرائیل زمینیں خرید کر بنا، وہ جمع تفریق کر کے غلط فہمی دور سکتے ہیں۔
1948 میں سات لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے اور مہاجر بن گئے۔ ان کی ساری زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود ان کو یا ان کے بچوں کو واپس ان کی زمین پر آنے کا حق نہیں دیا گیا۔ غزہ اور ویسٹ بنک پر قبضے کے وقت جو فلسطینی علاقے سے باہر گئے ہوئے تھے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔ یہ ساری ز مینیں اب ریاست اسرائیل کی زمینیں قرار دی جا چکی ہیں۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کو نئی عمارت بنانے کے لیے پرمٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ 71 ہزار عمارتیں اس لیے گرائی جا چکی ہیں کہ ان کے پرمٹ اسرائیل سے نہیں لیے گئے تھے۔
غزہ کے رہنے والے فلسطینی ویسٹ بنک نہیں جا سکتے اور ویسٹ بنک کے رہنے والوں کو غزہ جانے کی اجازت نہیں۔ دونوں کو یروشلم بغیر پرمٹ جانے کی اجازت بھی نہیں۔ خاندانوں کے خاندان تقسیم ہوئے پڑے ہیں۔ صرف اتنی اجازت دی گئی ہے کہ ویسٹ بنک سے کوئی غزہ جانا چاہے تو قانونی کارروائی کے بعد اس شرط پر جا سکتا ہے کہ پھر کبھی واپس ویسٹ بنک نہیں آ ئے گا۔
کچھ فلسطینی وہ ہیں جو مقبوضہ جات کی بجائے اس اسرائیل کے اندر رہ رہے ہیں جو 1948 میں قائم ہوا۔ غزہ اور ویسٹ بنک کے بر عکس یہ وہ ہیں جنہیں اسرائیل نے اپنا شہری قرار دے رکھا ہے اورکہنے کو انہیں ووٹ کا حق بھی دیا گیا لیکن عملا یہ صورت حال ہے کہ انہیں نئی آبادیوں میں گھر بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ " سوشل اینڈ کلچرل فیبرک" کے لیے خطرہ ہیں۔ ان کے بچے اگر غزہ یا ویسٹ بنک یا ملک سے باہر کہیں اور رہ گئے تو اب وہ واپس نہیں آ سکتے۔ وہ کسی فلسطینی سے شادی کرتے ہیں تو اسے نیشنیلٹی نہیں مل سکتی۔ ا ن کے شناختی کارڈ کا رنگ مختلف ہے۔ ان کی کسی یہودی سے لڑائی ہو جائے تو بیک وقت دو قوانین بروئے کار آتے ہیں۔ یہودی شہری پر دیوانی مقدمہ چلتا ہے اور عرب شہری پر فوجداری کا مقدمہ چلتا ہے۔ اسرائیل کے یہودی شہری دنیا بھر میں جا سکتے ہیں (بشمول ویسٹ بنک کے زون سی کے) لیکن انہیں غزہ یا ویسٹ بنک جانے کی اجازت نہیں۔ ا ن کی شہریت کسی بھی وقت منسوخ کی جا سکتی ہے اور ان کی زمینیں کسی بھی وقت ضبط کی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ عالم یہ ہے کہ اسرائیل میں 19 فیصد فلسطینی رہتے ہیں اور ان کے پاس اب صرف3 فی صد زمین رہ گئی ہے۔
اسرائیل ایک غاصب قوت تو تھا ہی، وہ اپارٹائیڈ (Apartheid) جیسے سنگین جنگی اور انسانی جرم کا ارتکاب بھی مسلسل ایک ریاستی پالیسی کے تحت کیے جا رہا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو اب چھپائے نہیں چھپ رہی اور مغرب اور امریکہ کی سول سوسائٹی میں اس کے خلاف رد عمل کی ایک ایسی لہر اٹھتی دکھائی دے رہی ہے جو بہت کچھ بدل سکتی ہے۔ ابھی مارچ 2021 میں انٹر نیشنل کرمنل کورٹ اسرائیل کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کر چکی ہے ا، نیتھن تھرال جیسے امریکی صحافی اسے اپارٹائیڈ کا مجرم قرار دے رہے ہیں اور پہلی امریکی کانگریس کے حزب اقتدار کے اراکین اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ مغرب اور بالخصوص امریکہ کی سول سوسائٹی میں پہلی بار اسرائیل کے بارے میں سوچنے کا اندا زبدل رہا ہے۔ اس معاشرے کو عشروں سے یہی بتایا گیا تھا کہ اسرائیل ایک مظلوم ریاست ہے جو بقاء کی جنگل لڑ رہا ہے اور خطے کی واحد جمہوری ریاست ہے جس کا ساتھ دینا ایک اصولی بات ہے۔ مغربی معاشرے میں یہ بیانیہ اب کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ رائے عامہ بدل گئی تو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ہر سال اربوں ڈال اسرائیل کی مدد کرنا بھی شاید امریکہ کے لیے ممکن نہ رہے۔ امریکہ ساری دنیا سے لڑ سکتا ہے اپنے شہریوں سے نہیں لڑ سکتا۔ اسرائیل کے بارے میں مغربی معاشروں کے سوچنے کا اندا زبدل رہا ہے۔ سوچ کی یہ تبدیلی، دیکھیے، کب پالیسی میں ظہور کرتی ہے۔
مغرب کی حکومتیں اور مغرب کا معاشرہ دو الگ چیزیں ہیں .حکومتوں کے بر عکس مغربی معاشرے میں خیر کی غیر معمولی قوت موجود ہے. یہ معاشرہ اگر حقیقت حال جان کر ایک رائے بنا لیتا ہے تو اس رائے سے لڑنا یا اسے دبانا وہاں کی حکومتوں کے بس کی بات نہیں ہے. امریکہ نے آج تک اگر اسرائیل کی غیر معمولی حمایت کی ہے تو اس نے اپنے سماج کو ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا ہے کہ اسرائیل کی حمایت کرنا اس کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کا تقاضا ہے کیونکہ وہ بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے اور خطے کی واحد جمہوریت ہے. ایک جمہوریت کا دفاع کرنے کے لیے امریکہ آؤٹ آف وے بھی جاتا رہا تو اس کا سماج اس کے ساتھ کھڑا رہا. اب مگر وہ بات نہیں رہی. اب سماج میں حقیقت چھپائے نہیں چھپ رہی. سوشل میڈیا نے سب کچھ کہہ دیا ہے. سب دیکھ رہے ہیں اسرائیل نسل پرست متعصب ریاست ہے جسے کسی اصول ضابطے کی پرواہ نہیں . ایک زندہ معاشرے کے لیے اپنے مشاہدے کا گلا گھونٹ کر جینا ممکن نہیں ہوتا. چنانچہ اب رد عمل آ رہا ہے. یہ رد عمل ہر اس معاشرے میں آیا ہے جہاں سول سوسائٹی کا گلا گھونٹا نہیں جا چکا. چنانچہ مغرب میں یہ رد عمل غیر معمولی ہے. اس کے نتائج بھی غیر معمولی ہوں گے۔ فی الوقت اگرچہ نتائج نظر نہیں آ رہے لیکن یہ ضرور دکھائی دے رہا ہے کہ وقت کا موسم بدل رہا ہے۔