شادی کیا ہے؟ اپنی دولت کی نمائش کے ذریعے اپنے احساس کمتری کو چھپانے کی ایک کوشش یا زندگی کے سفر کا ایک نیا باب اور ایک فریضہ؟ یہ احساس کمتری کو چھپانے کی ایک کوشش ہے تو سوال یہ ہے کیا دولت کے اندھے استعمال اور نمودونمائش سے یہ چھپ جاتا ہے یا اس کے مطالبات مزید بڑھ جاتے ہیں اوراگر یہ سفرِ زندگی کا ایک نیا باب اور ایک فریضہ ہے تو سوال یہ ہے کیا اس کی ادائیگی کے لیے اسراف لازم ہے یا یہ فریضہ سادگی سے باوقار انداز سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے؟
حلال اور حرام کی تو اس ملک میں عملا اب تمیز مٹ چکی۔ ریاست بھی اس تردد میں نہیں پڑتی کہ لوگوں سے پوچھ لے ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات، ان کا رہن سہن اور ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کے شادی کے اخراجات ان کے ذرائع آمدن کے مطابق ہیں یانہیں۔ چنانچہ جوابدہی کے کسی احساس کے بغیر ہر شہر کے شادی ہالوں میں دولت کی نمائش کے تکلیف دہ مقابلے جاری ہیں جہاں سر شام معززین شہر اور عمائدین حکومت سارے کرو فر کے ساتھ تشریف لاتے ہیں اور کسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ میزبان کے پاس دولت کے انبار کہاں سے آئے۔
شادی کی تقریب ہوتی ہی کتنی دیر کی ہے؟ چند گھنٹے یا شاید اس سے بھی کم۔ لوگ ان چند گھنٹوں کی نمودونمائش پر اتنی دولت برباد کر دیتے ہیں کہ عام حالات میں یہ ان کے گھر کا دو تین سال کا بجٹ بنتا ہے۔ اسراف اور نمودونمائش کے ایسے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ متلی ہونے لگتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
بنیادی وجوہات دو ہیں۔ اول: لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کہ دیکھو میں اتنا صاحب حیثیت ہوں۔ دوم اس خوف سے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ یہ دونوں رویے احساس کمتری کی علامت ہیں اور ہم بطور قوم ان رویوں کے آزار کا شکار ہو چکے ہیں۔ احساس کمتری ایک تیسرے رویے کی صورت بھی ظہور کرتا ہے۔ میزبان کی کوشش ہوتی ہے کہ شادی کی تقریب میں دو چار ایسے لوگ بھی آ جائیں جو ذرا نمایاں حیثیت کے ہوں تا کہ سند رہے، بوقت ضرورت بھلے کام آئے یا نہ آئے۔ چنانچہ اپنے اپنے درجات میں شادی کی کم و بیش ہر تقریب احساس کمتری کی ان تینوں غلاظتوں سے آلودہ ہو چکی ہے۔
نواز شریف صاحب کے دور میں ون ڈش کی پابندی تھی۔ یہ پابندی عام آدمی کی سہولت کے لیے تھی لیکن اس کے باوجود لوگوں نے اس پابندی کی خلاف ورزی کی۔ کسی نے جان بوجھ کر کی اور کسی نے دلہا والوں کے دبائو میں مجبوری میں یہ کام کیا لیکن اس پابندی کو پامال کیا جاتا رہا۔ خرابی جب سماج میں سرایت کر چکی ہو تو پھر محض قانون سازی سے اسے دور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اس ملک میں کوئی ہے جو تربیت کا بھاری پتھر اٹھا سکے۔ المیہ تو یہ ہے کہ معاشرے میں جن لوگوں کو کوئی حیثیت حاصل ہے، خود ان کے ہاں یہ احساس کمتری اپنی پوری شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔
تربیت کون کرتا ہے؟ ہر وہ شخص جو سماج کو کسی بھی حیثیت میں متاثر کر سکتا ہو۔ وہ عالم دین بھی ہو سکتا ہے، کھلاڑی بھی ہو سکتا ہے، سیاست دان بھی ہو سکتا ہے، حکمران بھی ہو سکتا ہے، حکومت اور ریاست کے کسی بھی اہم منصب پر فائز کوئی شخصیت بھی ہو سکتی ہے اور کوئی انتہائی دولت مند شخصیت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ اگر معاشرے میں سادگی کے ساتھ شادی کرنے کی روایت ڈالیں گے تو یہ روایت سماج میں قبول عام پا جائے گی۔ لیکن اگر یہی لوگ اپنے اپنے احساس کمتری سے باہر نہیں آ پائیں گے تو معاشرے کے عام طبقات سے یہ توقع رکھنا مشکل ہو گا کہ وہ اس شکنجے کو توڑ سکیں۔
عمران خان نے ایک دور میں قومی لباس اور پشاوری چپل کو اپنایا۔ تب سے اب تک یہ فیشن بن چکا ہے۔ اب وفاقی وزراء بھی پینٹ کوٹ اور ٹائی کی بجائے شلوار قمیض اور چپل پہنتے ہیں۔ لوگ جسے چاہتے ہوں اور پسند کرتے ہوں یا جو معاشرے میں کسی بھی درجے میں صاحب حیثیت ہو وہ اپنے عمل سے کسی بھی معاشرتی برائی کی نفی کر کے اس کے خاتمے میں غیر معمولی کردار ادا کر سکتا ہے۔ عمران خان کی دوسری شادی بھی بہت سادگی سے ہوئی۔ ولیمہ بھی انہوں نے ایک مدرسے کے یتیم بچوں کے ساتھ جا کر کیا۔ اس کے بعد کچھ رجحان سا پیدا ہوا کہ لوگوں نے مساجد میں جا کر سادگی سے نکاح پڑھایا اور رخصتی ہو گئی لیکن یہ رسم آگے نہ بڑھ سکی اور اب لوگ پوری بے حیائی کے ساتھ مساجد میں بھی نکاح سے زیادہ فوٹو شوٹ کے لیے جاتے ہیں اور اسی احساس کمتری کی تسکین کرتے ہیں۔
اس ملک میں انقلابی تحریکیں تو بہت اٹھیں اور انجام بھی ہم نے دیکھ لیا۔ اب ایک سماجی تحریک کی ضرورت ہے۔ جو لوگوں کی اصلاح کرے، جو انہیں ان کے احساس کمتری سے نکلنے میں مدد دے اور انہیں باور کرائے کہ شادی سادگی اور وقار کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔ اسے اپنے اور دوسروں کے لیے عذاب بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو کپڑے دلہن نے چند گھنٹے کے لیے پہننے ہیں اور پھر ساری عمر ان کپڑوں کی طرف مڑ کر نہیں دیکھنا ان پر لاکھوں روپے برباد کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ جو انہیں بتائے کہ شادی کے لیے شادی ہال بک کرا کر حلال اور حرام کی تمیز مٹاتے ہوئے نمودو نمائش کا آزار اوڑھ لینا ضروری نہیں، شادی گلی محلے کی کسی مسجد میں نکاح پڑھا کر شائستگی اور وقار کے ساتھ رخصتی کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ خوشی کے موقع پر خوش ضرور ہونا چاہیے لیکن اس خوشی کو اودھم نہیں بنا دینا چاہیے کہ اگلا عشرہ قرض اتارتے اتارتے سب کی کمر دہری ہو جائے۔
اس معاشرے کو اب کسی انقلاب سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے یہاں سبھی قائد انقلاب بقلم خود ہیں یا کوئی ایسا رجل رشید بھی ہے جو یہ بھاری پتھر اٹھا سکے؟