Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Kya Tehreek Insaf Fascism Ki Taraf Barh Rahi Hai?

Kya Tehreek Insaf Fascism Ki Taraf Barh Rahi Hai?

کیا تحریک انصاف فاشزم کی طرف بڑھ رہی ہے؟ کیا یہ پورے خلوص کے ساتھ کیا جانے والا ایک شعوری سفر ہے یا شدت جذبات کی بے دھیانی اسے بگولہ بنائے پھرتی ہے؟ نومولود نونہالان انقلاب کی قدرتِ گفتار سے ڈر لگتا ہے اس لیے شروع ہی میں عرض کر دوں میں یہ سوال " عمران خان کے بغض" میں کسی پٹوار خانے کی دہلیز پر بیٹھ کر نہیں اٹھا رہا، یہ سوال اس لیے اٹھا رہا ہوں کہ دیوار دل سے ساون کی کائی کی طرح اداسی آن لپٹی ہے۔

تحریک انصاف کو آپ نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے تک دیکھیے، آپ کو سوال کی معنویت کا اندازہ ہو جائے گا۔ سب سے اوپر جناب عمران خان بیٹھے ہیں۔ ان کا رویہ بتا رہا ہے کہ صاحب عالم کی نگاہ میں تحریک انصاف اور اس کے حلیفوں کے علاوہ ہر فرد اور گروہ راندہ درگاہ ہے اور اس زمین پر بوجھ ہے۔ ان کا مطالبہ بھی غالبا وہی ہے جو امریکی صدر بش نے دنیا کے سامنے رکھا تھا: ہمارے ساتھ ہو یا نہیں اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہو تو تم دہشت گردوں کے ساتھی ہو۔ عمران خان کا بھی عملا یہی مطالبہ ہے: ہمارے ساتھ ہو یا نہیں؟ اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہو تو تم کرپٹ اور بے ایمان ہو۔

پارلیمان کی حیثیت پارلیمانی جمہوریت میں مرکز کی ہوتی ہے کہ یہی فیصلہ ساز ادارہ ہے۔ جناب وزیر اعظم کے نزدیک مگر اس پارلیمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ حزب اختلاف کو دیکھ کر وہ بد مزہ ہو جاتے ہیں، اس لیے انتہائی ناگزیر صورت حال کے علاوہ وہ یہاں تشریف لانا پسند نہیں فرماتے۔ اہم قومی معاملات پر بھی حزب اختلاف سے کوئی مشاورت نہیں۔ حزب اختلاف کے کسی ایک پارلیمانی رہنما کے ساتھ وہ مل بیٹھنے کے روادار نہیں۔ قانون سازی کے لیے بھی پارلیمان کے ہوتے ہوئے وہ صدارتی آرڈی ننس کا سہارا لے لیتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا کہ کیوں؟ جواب بہت سادہ ہے: حزب اختلاف بے ایمان ہے، کرپٹ ہے اور چور ہے اور جناب وزیر اعظم کسی بے ایمان، کرپٹ اور چور سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ الا یہ کہ وہ اپنی صف چھوڑ کر لکیر کی دوسری جانب تحریک انصاف میں جا شامل ہو یا اس کا حلیف بن جائے۔ پھر اس پر کوئی دوش نہیں، اس سفر کے ایک مبارک لمحے میں وہ نیک، پاک، صاف، شفاف، اجلا، کردار کا غازی اور بے داغ ماضی ہو جاتا ہے۔

حزب اختلاف ہی سے نہیں، حکومت ریاستی مشینری سے بھی ناراض ہے۔ اس کے خیال میں اس ملک میں سب چور ہیں اور سب کرپٹ ہیں۔ چنانچہ اب کوئی اچھا کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب اسے تحریک انصاف ہی کے کارکنان کے ذریعے سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جائے۔ کورونا ایک طبی، سماجی اور معاشی مسئلہ تھا۔ حکومتی مشینری موجود تھی۔ رضاکار تنظیمیں موجود تھیں، جن کا سالوں کا خدمت خلق کا تجربہ تھا اور نیک نامی تھی۔ لیکن ان میں سے کسی پر بھروسا نہیں کیا گیا۔ سب چور جو ٹھہرے۔ چنانچہ اجلے لوگوں کی تلاش ہوئی اور اجلے لوگ تو پھر صرف تحریک انصاف میں ہی پائے جاتے ہیں چنانچہ کورونا ٹائیگر فورس بنا دی گئی۔ اعلان ہو گیا ریلیف کا کام یہ کرے گی۔ کورونا کی وبا کے دنوں میں یہ فورس کہیں نظر نہیں آئی لیکن سرکاری سطح پر اسی کے قصیدے پڑھے گئے۔

ایک بڑی وبا تھی۔ ایک بحران تھا۔ وزیر اعظم کو اگر سرکاری مشینری کے ساتھ رضاکار وں کی ضرورت تھی تو پوری قوم کو مخاطب بنانا چاہیے تھا اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ایک قومی رضاکار فورس بنانی چاہیے تھی لیکن ان کی افتاد طبع یہ بھاری پتھر نہ اٹھا سکی۔ وہ وزیر اعظم پاکستان کی بجائے وزیر اعظم تحریک انصاف بن کر بروئے کار آئے اور ٹائیگر فورس بنا ڈالی۔ اپنے کارکنان کے سوا کسی پر اعتماد نہیں۔ سب چور ہیں اور وطن میں "حرف اضافی" ہیں۔ رجال کار صرف وہ ہیں جو قافلہ انقلاب کا حصہ ہیں۔

اب مہنگائی کا بحران ہے۔ ضلعی انتظامیہ موجود ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود ہیں۔ پورا ریاستی ڈھانچہ موجود ہے۔ لیکن کسی پر اعتبار نہیں۔ اب ٹائیگرز کو پھر سے اکٹھا کیا جا رہا ہے وہ گلی محلے میں پھریں گے اور قیمتوں پر نظر رکھیں گے۔ جو نفرت اور پولرائزیشن یہاں پھیلائی جا چکی ہے اس کے بعد غیض و غضب میں بھرے نوجوانوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ سیاسی حریفوں کا آملیٹ بنانے کی بجائے انصاف سے کام لیں گے خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ نوجوان کس حیثیت سے کسی دوکان اور مارکیٹ میں گھسیں گے؟ ریاست کے اندر ریاست اور کسے کہتے ہیں؟ کیا تحریک انصاف ایک انتخابی عمل سے حکومت میں آئی ہے جہاں وہ ایک قانونی ڈھانچے سے حکومت کرنے کی پابند ہے یا اس کے جنگجوئوں نے وطن عزیز کو فتح کیا ہے اور اب یہ سب حکمران ہیں؟ ضلعی انتظامیہ کے ٹوئٹر جا کر دیکھیے۔ زمین پر کوئی کام نہیں ہو رہا ٹوئٹر پر داد شجاعت دی جا رہی ہے۔ زمین پر کسی کو کورونا فورس نظر نہیں آتی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر اس فورس کی مدح سرائی کر رہے ہوتے ہیں۔

حزب اختلاف ساری چور ہے اور حزب اقتدار ساری اللہ کے ولیوں پر مشتمل ہے۔ جمہوریت بھی اب " میں " ہوں۔ کسی اور کا وجود برداشت نہیں۔ پارلیمان میں آنا گوارا نہیں، ریاستی مشینری کی بجائے ٹائیگرز کے ذریعے نظام ریاست چلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لہجوں کا آتش فشاں تھمنے میں نہیں آ رہا، گفتار کا جلال قہر برسا رہا ہے۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ شہنشاہیت اور بادشاہت میں تو یہ رویہ چل سکتا ہے ایک پارلیمانی جمہوریت تو اس رویے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

رک جائیے اور تحمل سے سوچیے آپ کس سمت میں جا رہے ہیں۔ آپ خود کو اور اس معاشرے کو فاشزم کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ یہ سفر طے شدہ پالیسی کے تحت ہو رہا ہے تو پالیسی پر نظر ثانی کیجیے اور یہ اخلاص کی وارفتگی سے ہو رہا ہے تو اخلاص کو تھوڑا کم کر کے بصیرت کو جگہ دیجیے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran