پاکستان نے افغان برآمدات کے لیے واہگہ بارڈر کو کھول دیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ ایک درست فیصلہ ہے؟ سیاق و سباق اور معاملے کو سمجھ لیجیے۔ چند بنیادی چیزوں کی تفہیم ہو جائے گی تو رائے قائم کرنے میں آسانی رہے گی۔
پہلا بنیادی نکتہ یہ ذہن میں رکھیے کہ اس بندو بست کے تحت افغانستان کی اشیاء تجارت بھارت جا سکیں گی۔ بھارت کی اشیاء افغانستان نہیں جا سکیں گی۔ یہ سہولت بنیادی طور پر افغانستان کو دی گئی ہے۔ اس سے افغانستان کی برآمدات کو فائدہ ہو گا، بھارت کی برآمدات کو نہیں۔ معاہدے کے مطابق افغانستان سے مال لے کر واہگہ بارڈر پر جانے والے ٹرک وہاں سامان اتار کر خالی واپس جاتے ہیں۔ انہیں یہ اجازت نہیں کہ واپسی پر بھارت کا سامان لے کر جائیں۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس راہداری کو کشمیر میں بھارتی جارحیت کی وجہ سے بند نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کی بندش کی وجہ کورونا وائرس تھا اور یہ راستہ مارچ کے آخری ہفتے میں کورونا کے خطرے کے پیش نظر بند ہوا تھا۔ اب کچھ معاشی سرگرمیاں پھر سے شروع ہو رہی ہیں تو پاکستان نے یہ راہداری بھی کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک انتظامی بندو بست ہے۔ اس میں ملت فروشی اور بھارت نوازی کہیں بھی نہیں ہے۔
سمجھنے کی تیسری بات یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے معاشی مفادات جڑے ہیں اور اگر ہم افغانستان کی برآمدات کو بھارت تک جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو اس کے بدلے میں افغانستان کی راستے ہمیں سنٹرل ایشیا تک راستہ مل رہا ہے۔ قازقستان، کرغیزستان، چین اور پاکستان معاشی مفادات کی دوری سے جڑ رہے ہیں اور افغانستان سے ملنے والی راہداری پاکستان کے لیے امکانات کا جہاں پیدا کر سکتی ہے۔
چوتھی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ماضی قریب میں افغانستان کی بدلتی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی کو بڑے جارحانہ انداز سے آگے بڑھایا۔ افغان حکومت بھارت کے اس حد تک اثر میں تھی کہ اس نے باہمی تجارت کے معاملات کو یہ کہہ کر معطل کر دیا کہ اس تجارت میں بھارت کو بھی شامل کیا جائے۔ پاکستان کے ٹرکوں کو افغانستان جانے سے روک دیا گیا۔ کافی مشکل مراحل آئے لیکن پاکستان نے بھارتی برآمدات کو راستہ دینے سے انکار کیے رکھا۔ اب خطے میں کچھ حالات بدل رہے ہیں۔ ایران اور چین کی قربت بڑھ رہی ہے۔ افغانستان کو بھی سمجھ آ رہی ہے وقت کا موسم بدل رہا ہے۔ وہ بھی بھارت کو راستہ دینے کی ضد نہیں کر رہا۔ بس اپنی برآمدات کو راستہ مل جانے پر مطمئن ہے۔ سی پیک کے امکانات کے ساتھ پاکستان کو سنٹرل ا یشیاء تک جواب میں رسائی مل رہی ہے۔ گویا بھارت کی مسلط کردہ تنہائی ختم ہو رہی ہے اور پاکستان کے لیے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ایسے میں رد عمل کی نفسیات کا اسیر نہیں ہوا جا سکتا۔ پاکستان نے درست فیصلہ کیا ہے اور اس کے معاشی ہی نہیں تزویراتی اثرات بھی خوش آئند ہوں گے۔
پانچواں نکتہ یہ ہے کہ خطے کی بدلتی صورت حال میں کوئی بھی کام اکیلے میں اور بلاوجہ نہیں ہو رہا۔ چیزیں مربوط انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ کہاں وہ وقت کہ بھارتی اثرو رسوخ میں الجھے افغانستان نے پاکستان کو سنٹرل ایشیاء تک رسائی دینے سے انکار کیا تو پاکستان، قازقستان، کرغیزستان اور چین کو QTTA معاہدے کے ذریعے الگ سے معاملات کرنے پڑے جو پاکستان کے لیے اتنے اچھے نہ تھے اور کہاں یہ وقت کہ ایران میں بھارت کے امکانات سمٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چاہ بہار پراجیکٹ سے بھارت کو ابتدائی جھٹکے محسوس ہونے شروع ہو چکے۔ افغانستان کی برآمدات اگر پاکستان کے راستے بھارت جا رہی ہیں تو اس نئے وسیع تر معاشی بندوبست کا ایک پہلو ہے جو سی پیک سے پھوٹ رہا ہے اور خطے میں کچھ قوتیں قریب آ رہی ہیں۔ پاکستان اگر افغانستان کو راستہ دے رہا ہے تو جواب میں افغانستان سے بھی کسی نے تو یہ کہا ہو گا کہ پاکستان میں بھارتی پراکسی کا کھیل کھیلنا اب بند کر دو۔ معاشی مفادات کی تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بجا ئی جا سکتی۔ اتنا تو سبھی کو معلوم ہو گا۔
خارجہ پالیسی ہو یا معاشی پالیسی، یہ رد عمل کی سطحیت میں تشکیل نہیں دی جا سکتیں۔ رد عمل بلا شبہ دیا جاتا ہے لیکن وہ بھی ایک وسیع تر منصوبہ بندی کے ایک جزو کے طور پر دیا جاتا ہے۔ ہماری وسیع تر منصوبہ بندی کیا ہے؟ سادہ سے انداز میں بیان کر دی جائے تو اس کے تین نکات ہیں۔ اول: سی پیک کی کامیابی اور اس سے جڑے معاشی امکانات سے استفادہ۔ دوم: خطے میں بھارت کا اثرو رسوخ کم سے کم کرتے ہوئے اپنے لیے باوقار گنجائش پیدا کرنا۔ سوم: افغانستان کو بھارتی پراکسی بننے سے روکنا اور اسے مثبت انداز سے ساتھ لے کر چلنا تا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف کسی بھی انداز سے استعمال نہ ہو سکے۔ پاکستان اسی ویژن کے تحت آگے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس کے تحت افغانستان کی برآمدات پاکستان سے گزر کر بھارت جا سکتی ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے بھارت نے اس معاہدے کو سبو تاژ کرنے کی سر توڑ کوششیں کیں۔ یہاں تک کہ پاک افغان مذاکرات معطل رہے۔ افغانستان نے بھارتی دبائو کے تحت یہ شرط عائد کیے رکھی کہ جب تک اس معاہدے میں بھارت کو شامل نہیں کریں گے ہم آپ سے دو طرفہ تجارت کے معاملے پر بات تک نہیں کریں گے۔ افغانستان پر بھارت کا دبائو تھا کہ پاکستان کے راستے صرف افغانستان کی برآمدات بھارت نہ جائیں بلکہ بھارت کو اپنی برآمدات افغانستان اور آگے تک لے جانے کے لیے پاکستان سے راستہ لیا جائے۔ پاکستان نے یہ مشکل دورانیہ گزار لیا لیکن یہ شرط نہیں مانی اور آج افغانستان کے ٹرک پاکستان سے گزر کر تو جائیں گے لیکن دو طرفہ معاہدے کے تحت صرف افغانستان کی برآمدات واہگہ پر اتاری جائیں گی۔ ٹرکوں کو واپسی پر بھارت کا مال لے کر جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس میں مایوسی کیسی اور تنقید کس بات کی؟