جولائی کا مہینہ ہے۔ گرمی زوروں پر ہے اور حبس شدید۔ دم گھٹتا ہے۔ لیکن میرے وکیل دوست اس حبس اور اس گرمی میں کالے رنگ کا پینٹ کوٹ پہن کر ٹائی لگا کر پھر رہے ہوتے ہیں۔ میں شدید گرمی میں ان دوستوں کو اس حال میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں یہ لباس پیشہ ورانہ ضرورت ہے، احساس تفاخر ہے یا ہماری فکری غلامی کی ایک یاد گار ہے جسے ہم گلے لگائے پھرتے ہیں؟ اگر ہم موسم کی مناسبت سے کوئی معقول لباس پہن لیں تو کیا قانون کی کتابوں میں لکھے الفاظ ہم سے روٹھ جائیں گے؟
بار کونسلز نے ہوٹلوں کو تو خط لکھ دیے کہ اپنے بیروں کے لباس تبدیل کیجیے کیونکہ وہ ہمارے لباس سے ملتے جلتے ہیں لیکن کیا بار کونسلز نے کبھی جون جولائی کے مہینوں میں وکیلوں کا حشر ہوتے نہیں دیکھا؟ کیا یہ لازم ہے کہ دور غلامی کی ہر نشانی کو سینے سے لگا کر رکھنا ہے چاہے دم گھٹ جائے؟ ہمارے قانون دان رہنما دنیا کے ہر موضوع پر تہتر کے آئین کے تناظر میں اس قوم کی رہنمائی کرنے پر ہر دم تیار پائے جاتے ہیں۔ کیا ان اکابرین میں سے کوئی ہے جو بتا سکے کہ سیاہ رنگ کے اس پینٹ کوٹ اور ٹائی کی کیا افادیت ہے اور ہماری تہذیبی اور قانونی روایات سے اس کا کیا تعلق ہے؟ ڈریس کوڈ ضرور ہونا چاہیے لیکن اپنے موسم اور اپنے مقامی ذوق سے اسے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ عقل کی نعمت بھی اللہ تعالی نے عطا کر رکھی ہے اور اتفاق سے عقل کا ستعمال ابھی تک قابل دست اندازی پولیس جرم قرار نہیں پایا۔
وکلاکا موجودہ لباس ملکہ وکٹوریہ کے زمانے کی یاد گار ہے۔ دور غلامی کا یہ طوق امریکہ، کینیڈا وغیرہ نے اتار پھینکا ہے لیکن ہم اسے گلے میں ڈالے جون جولائی کے حبس میں فخریہ پھر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ورنیکلر، لوگ بھی صاحب بن گئے۔ امریکہ نے آزادی کے ساتھ ہی برطانوی ڈریس کو ڈ لپیٹ دیا۔ کینیڈا نے بھی کسی حد تک یہی کیا اور وہاں ججوں کو مائی لارڈ اور یور آنر کی بجائے صرف سر کہا جانے لگا۔ یہی کام جزوی طور پر بھارت میں بھی ہوا لیکن یہ اعزاز ہم پاکستانیوں کے حصے میں آیا ہے کہ آزاد ہوئے پون صدی بیت چکی لیکن ہم دور غلامی کی ہر یادگار کو نشان منزل قرار دیے بیٹھے ہیں۔
ہندوستان میں 1857 میں جنگ آزادی لڑی گئی۔ اس کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے گورنمنٹ آف انٖڈیا ایکٹ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہندوستان کو اپنی عملداری میں لے گیا۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس پر پنجاب کے" علماء و شیوخ " نے سپاس نامہ پیش کیا کہ " ہوئی بد نظمیاں سب دور انگریزی عمل آیا"۔ پہلا انتظامی فیصلہ یہ کیا گیا کہ یہاں ایک ایسا فوجداری نظام لایا جائے کہ رعایا میں سے کسی کو آئندہ سر اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ چنانچہ تین سال کے غوروخوض کے بعد 22 مارچ 1961 کوپولیس کا ڈھانچہ وضع کیا اور پولیس ایکٹ آ یا۔ آج 160 بعد بھی ہماری پولیس (چند جزوی تبدیلیوں کے باجوود) بنیادی طور پر اسی ڈھانچے پر کھڑی ہے۔
جس قانون کو ہم تعزیرات پاکستان کہتے ہیں یہ قانون بہادر شاہ ظفر کی جلاوطنی کے ایک سال بعد اور ان کی وفات سے ایک سال قبل متعارف کرایا گیا۔ یہ آج 161 سال بعد بھی ویسا ہی ہے۔ بس ہم نے اس کا نام بدل لیا اور چند پیوند لگا کرہم مطمئن ہو گئے۔ کیسی خوفناک حقیقت ہے کہ ہمارا سارا فوجداری ڈھانچہ اس قانون پر کھڑا ہے جو بہادر شاہ ظفر کی جلاوطنی کے مانے میں رعایا کو کچلنے کے بعد اس اہتمام سے لایا گیا کہ اس رعایا میں آئندہ کوئی سر نہ اٹھانے پائے۔
مجموعہ ضابطہ فوجداری 121سال پرانا ہے۔ سیلز آف گڈز ایکٹ 89سال پرانا ہے۔ سپیسیفک ریلیف ایکٹ کو بنے 140سال ہو گئے ہیں۔ سٹیمپ ایکٹ 119سال کا ہو چکا ہے۔ ٹرانسفر آف پراپرٹی کا جو قانون ہم نے رائج کر رکھا ہے وہ 136 سال پرانا ہے۔ ایکسپلوزوز ایکٹ کی عمر 134 سال ہے۔ پاسپورٹ ایکٹ 98سال پرانا ہے۔ پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس کا قانون 157 سال پرانا ہے۔ ایکٹریسٹی ایکٹ کی عمر 108سال ہے۔ فیٹل ایکسیڈنٹس ایکٹ کو بنے 163 سال ہو گئے ہیں۔ جنرل کلاز ایکٹ 121سال کا ہو چکا ہے۔ گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 128سال پرانا ہے۔ لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ کی عمر 124سال ہے۔۔ نگوشییبل انسٹرومنٹ ایکٹ کی عمر 137سال ہے۔ اوتھ ایکٹ 145سال کا ہو چکا ہے۔ پارٹیشن ایکٹ کو 125 سال ہو چکے۔ پارٹنرشپ ایکٹ86سال پرانا ہے۔۔ پنجاب لاز ایکٹ کی عمر 146سال ہے۔ پنجاب ٹیننسی ایکٹ 131سال پرانا ہے۔ رجسٹریشن ایکٹ 110سال پرانا ہے۔ علی ہذا القیاس۔
نہ ہمارے قانون بدلے ہیں نہ ہمارے لباس بدلے ہیں۔ ایسے میں رویے کیسے تبدیل ہو سکتے ہیں؟ اراکین پارلیمان یخ بستہ ماحول میں مطمئن ہیں جہاں ایک دن کے اجلاس پر اٹھنے والا خرچ اوسطا چار کروڑ تک پہنچ چکا ہے اور و ہم کلا حبس کے موسم میں پینٹ کاٹ ٹائی پہن کر مطمئن ہیں کہ وکٹوریہ عہد کی اشرافیہ کا لباس پہن لیا۔ ہم معزز، ہو گئے۔
آزاد ہوئے ہمیں پون صدی ہونے کو ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہم اپنے لباس پر غور کریں۔ سوچیں کہ سیاہ رنگ ہی کیوں؟ سیاہ رنگ تو گرمی جذب کرتا ہے۔ اور پھر انگریزی لباس ہی کیوں؟ خدام ادب کو یہاں جناح کیپ پہنا دی گئی ہے اور قانون دان جولائی میں کالا سوٹ پہنتے ہیں۔ انگریز نے ججوں کو وگ پہنائی تو اسی کی دہائی تک ہمارے ہاں بھی وگ پہنی جاتی رہی۔ آزادی کے بعد تین عشرے کسی نے غور کرنے کی زحمت نہ کی کہ اس وگ مبارکہ میں کون کون سی فضیلت ہے۔ ہمارے ہاں شلوار قمیض کی اجازت دی گئی تو ساتھ شیروانی کی شرط رکھ دی گئی۔ پینٹ کوٹ میں پھر کہیں سے ہوا کا جھونکا گر جاتا ہے شیروانی محترمہ تو پورا بکتر بند ہیں۔ پھر یہ سرما میں تو ایک موزوں لباس ہو سکتا ہے گرم موسم میں یہ بھی مناسب نہیں۔
انگریز نے جو لباس متعارف کرایا تھا وہ ان کے سرد موسم کی مناسبت سے تھا۔ ہم جون جولائی میں بھی اسے اتارنے کو تیار نہیں۔ ہے کوئی ہم سا؟