چیئر مین سینیٹ کا الیکشن ہو گیا۔ جس صادق سنجرانی کی خاطر تحریک انصاف اپنے دور اقتدار میں دوسری بار خم ٹھونک کر میدان میں اتری وہ تحریک انصاف کے نہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے ہیں۔
اس سے پہلے جس حفیظ شیخ صاحب کے لیے حکومت نے اتنی سبکی اٹھائی کہ پھر اعتماد کا ووٹ لے کر اعتماد بحال کرنا پڑا وہ بھی تحریک انصاف کے نہیں اور کابینہ پروفائل میں ان کے تعارف کے آگے تحریک انصاف نہیں لکھا۔ ٹیکنوکریٹ لکھا ہے۔ کیایہ وہی حفیظ شیخ نہیں ہیں جو آصف زرداری کے وزیر خزانہ تھے، اور پرویز مشرف کے وزیر نجکاری ہوا کرتے تھے۔
پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس صوبے کی وزارت اعلی جناب عثمان بزدار کے پاس ہے۔ سوال یہ ہے کہ عثمان بزدار کا تحریک انصاف سے کیا تعلق؟ کیا کسی کو معلوم ہے وہ کب تحریک انصاف میں شامل ہوئے؟ جولائی 2018 کو الیکشن ہو اور مئی 2018 میں وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ یعنی الیکشن سے صرف دو ماہ پہلے۔ 2001 میں وہ ق لیگ میں تھے۔ 2008 میں ق لیگ چھوڑ دی اور فارورڈ بلاک میں شامل ہو گئے۔ 2013 میں مسلم لیگ پر عروج تھا تو بھائی جان جلدی سے ن لیگ میں شامل ہو گئے لیکن الیکشن ہار گئے۔ 2018 کے انتخابات کا اعلان ہوا تو صاحب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شامل تھے۔ الیکشن سے دو ماہ پہلے اس محاذ کا تحریک انصاف سے اتحاد ہوا تو بزدار صاحب تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ پی ٹی آئی نے ملک کا سب سے بڑا صوبہ اس شخص کے حوالے کر رکھا ہے جو الیکشن سے صرف دو ماہ پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا۔
پنجاب کے سپیکر چودھری پرویز الہی ہیں۔ عمران خان کسی زمانے میں انہیں عجب قسم کے القابات دیا کرتے تھے۔ اٹک سے سرگودھا تک عامر سلطان چیمہ سے میجر طاہر صادق تک کتنے چودھریوں کے ہی رشتہ دار ہیں، جو آخری وقت میں اچانک تحریک انصاف بن گئے کہیں تبدیلی خفا ہو کر واپس نہ چلی جائے اور اب اسمبلیوں میں بیٹھ کر صبح انقلاب کے پہلے ستارے کی طرح جگمگا رہے ہیں۔
اکنامک افیئرز کی وزارت جناب خسرو بختیار کے پاس ہے۔ وہ پہلے مسلم لیگ کے ایم پی اے بنے۔ پھر مسلم لیگ ق کے ایم این اے بنے۔ پھر شوکت عزیز نے انہیں فارن افیئرز کی وزارت دی۔ مشرف دور ختم ہوا اور مسلم لیگ ن پر بہار آئی تو وہ ن لیگ میں شامل ہو گئے اور امور خارجہ کی قائمہ کمیٹی کے چیئر مین بنا دیے گئے۔ 2018 میں جب انتخابات کا اعلان ہوا تو یہ ن لیگ میں تھے۔ وہاں سے یہ بزدار صاحب کی طرح جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں چلے گئے اور وہاں سے جہانگیر ترین کی انگلی پکڑ کر تحریک انصاف میں آ گئے۔ اب وفاقی وزیر ہیں۔
فواد چودھری صاحب کا تو ڈائولینس کے ریفریجریٹر کی طرح نام ہی کافی ہے کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔ مشرف پر عروج تھا تو یہ ان کے ساتھ تھے۔ پیپلز پارٹی پر عروج آیا تو یہ یوسف رضا گیلانی اور زرداری کی بصیرت کے قصیدے لکھتے تھے اب عمران خان کے فضائل بیان کرتے ہیں اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر بن کر پہلے ہی بتا دیتے ہیں اگلے موسم میں چاند کب طلوع ہو گا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی مل کر بھی مگر یہ نہیں بتا سکتیں کہ اگلے موسم میں صاحب خود کس جماعت میں ہوں گے۔
اٹھائیس وفاقی وزراء میں سے صرف 9 وزیر ایسے ہیں جنہیں واقعی تحریک انصاف کہا جا سکتا ہے اور پیپلز پارٹی سے آنے والے شاہ محمود قریشی صاحب بھی انہی میں سے ایک ہیں کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کے اقتدار میں ہی پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ 19 وزراء ایسے ہیں جن کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں یا اگر تحریک انصاف سے ہے تو یہ موسمی تعلق ہے اور ان وزراء کی تاریخ بتاتی ہے کہ جس پر عروج ہو یہ اس کے ساتھ مل کر اقتدار ہتھیا لیتے ہیں۔ آج تحریک انصاف کی حکومت ہیں تو انہوں نے اپنا مال غنیمت لے رکھا ہے کل کسی اور کی حکومت ہو گی تو یہ وہاں بھی مال غنیمت لینے پہنچ جائیں گے۔
صاحبزادہ محبوب سلطان وفاقی وزیر ہیں اور کہنے کو تحریک انصاف کے ہیں لیکن ق لیگ پر عروج تھا تو یہ ق لیگ میں ہوتے تھے اور ن لیگ پر عروج تھا تو یہ ن لیگ کا حصہ تھا۔ ایسا ہی حال فواد چودھری، میاں محمد سومرو، انوار الحق قادری، اعظم سواتی، شفقت محمود، خسرو بختیار، عمر ایوب خان اور سید فخر امام کا ہے۔ باقی کے وزراء اتحادی جماعتوں کے ہیں۔ آدھی سے زیادہ کابینہ کو کچھ پرواہ نہیں کیا ہو رہا ہے۔ وہ مزے میں ہیں۔ نا کا مستقبل تحریک انصاف سے وابستہ ہی نہیں تو وہ تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی کے لیے کیوں پریشان ہوں۔ انہیں تسلی ہے کل کسی اور کی حکومت ہو گی تو وہ اس کا بھی حصہ ہوں گے۔
برصغیر میں میٹرک کا پہلا امتحان 1857 کی جنگ آزادی کے بعد 1858 میں ہوا۔ انگریزوں کے لیے پاسنگ مارکس 65 ٖ فی صد ہوا کرتے تھے۔ لیکن کمیٹی نے سفارش کی کہ چونکہ مقامی لوگوں کی فہم و استعداد انگریز سے آدھی ہے اس لیے ہندوستان میں پاسنگ مارکس بھی 32 اعشاریہ 5 فیصد رکھے جائیں۔ چنانچہ طے ہوا کہ ہندوستانی لوگ اگر 33 فیصد نمبر بھی لے لیں تو انہیں پاس تصور کیا جائے گا۔ انصاف کو مزید یقینی بنانے کے لیے کہا گیا کہ 32 اعشاریہ 5 فیصد نمبروں کو بھی 33 فیصد سمجھا جائے گا۔ کابینہ میں تحریک انصاف کا حصہ 32 فیصد بھی نہیں بنتا، اس لیے مقامی فارمولے کے مطابق بھی یہ پاسنگ مارکس سے کم پر کھڑی ہے۔ جوڑ توڑ اور مفاہمت اور اتحاد کی سیاست اپنی جگہ لیکن اپنی جماعت کو کابینہ میں پاسنگ مارکس تو دیے ہوتے۔
اعتماد کے ووٹ نے اگر واقعی عمران خان کا اعتماد بحال کیا ہے تو انہیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا یہ واقعی ان کی حکومت ہے یا ان کی افادیت صرف اتنی سی ہے کہ معین قریشی اور شوکت عزیز کی نسبت ایک مقبول عوامی چہرہ زیادہ فائدہ مند ہوتاہے۔