پانچ جماعتی اتحاد نے اپنی تحریک کا نام۔ تحریک تحفظ آئین۔ ، رکھا ہے اور میرے جیسا طالب علم بیٹھا سوچ رہا ہے کیا نومولود آئین دوستوں کی اس صف بندی کا مقصد واقعی آئین کا تحفظ ہے؟ سیاسی جماعتیں سیاست ضرور کریں کہ یہ ان کا حق ہے لیکن تحفظ آئین جیسے خوش نما نعرے سن کر پروین شاکریاد آ جاتی ہیں کہ یہ نئے خواب خوش نما ضرور ہوں گے لیکن کیا کریں تمہارے اعتبار کا موسم گزر چکا ہے۔
جن حضرات نے تحریک تحفظ آئین کے جلسے سے خطاب فرمایا، سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے آئین پڑ ھ رکھا ہے، کتنے ہیں جنہیں علم ہے کہ اس آئین میں کیا لکھا ہے اور کتنے ہیں جو یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے اسی آئین کو بے رحمی سے پامال نہیں کیا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جلسے کے شرکاء میں سے کتنوں کو معلوم ہے آئین کیا ہوتا ہے اورا س کے تقاضے کیا ہیں۔ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ جلسہ عام میں کی گئی تقاریر میں آئین کو کتنا حصہ ملا؟ کیا تقاریر کا 2 فی صد بھی آئین سے متعلق تھا؟
اس سوال سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ان سیاسی رہنمائوں کے نزدیک آئین کی سر بلندی اور اس کے تحفظ کا مطلب کیا ہے؟ کیا آئین کے تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے اس کے سیاسی مفادات کا تحفظ ہو جائے۔ ان کے نزدیک آ خر ہے کی؟ کیا آئین انہیں اقتدار میں لانے کا محض ایک عامل ہے یا آئین میں کچھ اور بھی لکھا ہے؟ یہ جتنی شخصیات تحفظ آئین کے نام پر اپنے نصیبوں کو رونے بیٹھی ہیں، ذرا آئینہ سامنے رکھ کر خود سے پوچھ پائیں گی کہ آئین سے ان کی وابستگی کا کیا عالم رہا ہے اور کیا ہے؟
مثال کے طور پر مجید اچکزئی کی گاڑی جب ایک پولیس اہلکار کو کچلتی ہے تو آئین کہاں کھڑا ہوتا ہے اور محمود اچکزئی کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟ آئین تو سب شہریوں کوبرابر قرار دیتا ہے اور وہ تو سب کی جان کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔ اس پورے دورانیے میں محمود اچک زئی صاحب کی آئین دوستی کی اگر کوئی مثال ہے تو سامنے لائی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کے خط کے بعد وہ تو بات کرے جس کا دامن صاف ہو لیکن تحریک انصاف کی قیادت اگر اس کو پرچم بنانا چاہے تو راستے میں شوکت صدیقی بھی حائل ہوں گے اور وہ ریفرنس بھی سوال بن کر آئے گا جو عارف علوی نے قاضی فائز عیسی کے خلاف فائل کیا اور جس پر بعد میں ندامت کا اظہار کرنا پڑا۔ اقوال زریں اپنی جگہ لیکن یہ سوال تو پیدا ہوگاکہ احترام عدلیہ کا یہ راز تجھ پر کب کھلا؟ اقتدار سے جانے کے بعد؟
یہ نومولود آئین دوست بتائیں گے کہ جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو اس وقت ان کی آئین دوستی کہاں گئی تھی؟ ڈپٹی سپیکرنے آئین کا واضح تقاضا پامال کر دیا تھا۔ اس وقت حکومتی بنچوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو کہتا کہ عالی جاہ آئین پر عمل کیجیے۔ یاد رہے کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ ڈپٹی سپیکرنے آئین شکنی کی اور حکومت چاہے تو ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ تو کیا خیال ہے تحفظ عدلیہ کے لیے چلائی گئی اس تحریک کے احترام میں وفاقی حکومت کو سپریم کورٹ کی اس بات پر عمل کرتے ہوئے یہ کارروائی شروع کر دینی چاہیے۔
پاکستان میں بہت سی چیزیں درست نہیں ہیں۔ اصلاح احوال کی ضرورت ہے لیکن اصلاح احوال ایک چیز ہے اور ان معاملات کی بنیاد پر ملک کو دائمی انتشار اور ہیجان میں دھکیل دینا بالکل ایک دوسری چیز ہے۔ اس تحریک کا آغازبلوچستان سے ہونا اپنے اندر جہان معنی رکھتا ہے۔ کیا یہ اس صوبے سے جڑے تزویراتی مسائل کو مزید سنگین بنانے کی ایک شعوری کاوش ہے؟
حصول اقتدار کی کوششیں سب کا حق ہے۔ دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں۔ لیکن جب ایسی کسی کاوش کو تحفظ آئین، جیسا نام دیا جاتا ہے تو سوال اٹھتا ہے۔ آئین سے یہ اہل سیاست اتنے ہی مخلص ہوتے تو قوم کو اس کا آئین توکم از کم اس کی قومی زبان میں دیتے۔ جو اقتدار سے الگ ہوتا ہے اسے آئین یاد آ جاتا ہے اور جسے اقتدار ملتا ہے اس کی پھر جانے بلا کہ آئین کیا ہوتا ہے۔
نصاب میں آج تک آئین کی اہمیت پر ایک باب درج نہیں ہو سکا۔ آئین کبھی کسی مسجد میں خطبہ جمعہ کا موضوع نہیں بن سکا۔ ایک آدمی کو آئین نے جو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں وہ کبھی اسے ملے نہ کبھی زیر بحث آئے۔ کسی طالب علم کو ایک دن بھی کسی کتاب میں یہ سبق پڑھنے کو نہیں ملا کہ آئین میں ایک عام انسان کو کون کون سے حقوق دیے گئے ہیں۔ لاتعلقی اور بے گانگی کے اس ماحول میں کوئی سمجھتا ہے آئین کے بارے میں آگہی پیدا ہو جائے گی تو اس خوش فہمی سے پانی تو تبرک کیاجا سکتا ہے، سوچنے کا انداز نہیں بدلا جا سکتا۔ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق صرف آئین کی کتاب میں ہی جگمگاتے رہے وہ اپنی چمک سے سماج کے اندھیرے ختم نہ کر سکے۔
آئین میں بنیادی حقوق کی بات تو کی گئی لیکن معاف کیجیے، ادھوری بات کی گئی۔ ایسے ہی جیسے کسی مقطع میں کوئی سخن گسترانہ بات آ جائے۔ اہل دانش کی تاویلات اپنی جگہ لیکن عوام کے لیے اس دستاویز میں ایسا کچھ بھی نہیں جو انہیں اس کی حرمت کا قائل کر سکے اور جو ان کے دل میں اس کا احترام ڈال سکے۔ صحت اور تعلیم دو بنیادی چیزیں تھیں، سولہ سال تک مفت تعلیم کی آئین نے بات کی لیکن اہل اقتدار نے اس پر عمل کرنا ضروری نہ سمجھا۔ ہمارے آئین میں آج بھی صحت اور علاج بنیادی انسانی حقوق میں شا مل نہیں۔ اہل اقتدار اپنے علاج کے لیے ملک سے باہر جانا پسند فرماتے ہیں اور عوام کے لیے صحت کارڈ کی بھیک ہے تا کہ غلام اس سخاوت کو یاد رکھیں اور الیکشن میں ووٹ دے کر شکر گزاری کو ثابت کریں۔ ہاں، جان اور مال کی سلامتی کے کچھ اقوال زریں ہیں جنہیں کسی حکومت نے قابل توجہ نہیں سمجھا۔
عوام کی زندگی کے صحرا میں آئین کی وجہ سے ایک دو نخلستان ہی آباد ہو ئے ہوتے تو عوام اور آئین میں ایک رشتہ، ایک قلبی تعلق پیدا ہوتا۔ اہل سیاست کے ہاں جب بھی آئین کی بالادستی کی غزل چھڑی اس کا مطلع صرف یہ ہوتا تھا کہ اقتدار پر ہمارے چند خاندانوں کا حق ہے اور کسی کو اس حق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ یہ مطلع بھلے درست تھا لیکن مقطع تک کہیں بھی عوام کا ذکر نہیں تھا۔ اس سارے بیانیے میں کبھی یہ زیر بحث نہیں آیا کہ فلاں چیز عوام کا آئینی حق ہے۔ چنانچہ عوام لا تعلق ہوتے گئے۔ آئین کی بالادستی کی جدوجہد ان کے لیے پریوں کی ایک کہانی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
تحریکیں آپ ضرور چلائیے آپ کا حق ہے، لیکن اس تحریک کا آئین کے تحفظ سے کوئی تعلق نہیں۔