سجاد اظہر کی " لنڈی کوتل کی لالٹین " دیکھی تو ہیمنگوے کا ناول " اے فیئر ویل تو آرمز" یاد آگیا۔ ہیمنگوے نے ناول لکھا تھا اور سجاد نے نثری نظمیں لیکن الجھن ایک جیسی ہے۔
اے فیئر ویل تو آرمز پڑھا تو یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اس میں اسلحے اور جنگوں کو الوداع کہا جا رہا ہے یا اپنے بچھڑ جانے والے پیار کو۔ یعنی آرمز، کا تعلق اسلحے سے ہے یا بانہوں سے۔ اور لنڈی کوتل کی لالٹین کو دیکھا اسلحے کے اوپر حجرے میں رکھی لالٹین کی جلی ہوئی چمنی دیکھ کر خیال آیا کیا یہ لالٹین پہاڑوں پر اتری حسین راتوں کا قاصد ہے یا لنڈی کوتل کے اطراف جنگوں میں لپٹے عشروں سے پھوٹتے انسانی المیوں پر جل کڑھ رہا ہے۔
اے فیئر ویل ٹو آرمز، کا معاملہ یہ ہے کہ جتنی بار پڑھا جائے یہ الجھن بڑھتی جاتی ہے کہ اسFarewell کا مخاطب کون ہے۔ لنڈی کوتل کی لالٹین کی کہانی البتہ سجاد اظہر نے پہلی ہی نظم میں بیان کر دی ہے۔ بیانیہ نامی اس نثری نظم میں ایک پورے عہد کا المیہ سمٹ آ یاہے:
میں ایسے صحرا نوردوں میں رہتا ہوں
جہاں پانی کی تلاش جرم ہے
بھوک سے نڈھال
اور پیاس سے بلکتے بچوں کو
یہ وعظ سنایا جاتا ہے کہ
جس کسی نے تم پر لشکر کشی کی
وہ صحرا کی وسعتوں میں خاک ہو گیا
تم آج بھی آزاد ہو
جس کا گواہ
یہ صحرا ہےیہ پیاس ہے
اور اس میں ناچتی یہ بھوک ہے
نثری نظم یعنی نثر میں شاعری کا ادب میں کیا مقام ہے، یہ فیصلہ اہل ادب نے کرنا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں یاد نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے یہ نظم نہیں ہے۔ اس طبقے کے نزدیک شاعری کا حسن یہ ہے کہ اسے یاد رکھا جا سکتا ہے لیکن نثری نظم کو یاد نہیں رکھا جا سکتا۔ البتہ بعض حضرات کے خیال میں یہ ادب کی دنیا کا اجتہادِ تازہ ہے۔ تاہم کچھ لوگ اسے ادبی اجتہاد کی بجائے ادبی بدعت قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں نظم وزن اور بحر کی پابند ہوتی ہے اور اگر پابند نہ ہو تو وہ صرف انتشار ہے۔ وزیر آغا صاحب نے تو نثری نظم کے لیے باقاعدہ ایک نیا نام نثم، بھی تجویز کر دیا تھا۔ افتخار عارف کی رائے بھی یہ ہے کہ نثری نظم کی صنف اب مستحکم ہو چکی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں کہ بورخیس کے مطابق ہر وہ تحریر جسے نظم سمجھا جائے نظم ہی ہوتی ہے۔ اس کی شرح وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ہر وہ تحریر جس میں نظم کی طرح ارتکاز اور شدت ہو، نظم ہی کہلائے گی۔
ارتکاز اور شدت کا معاملہ ذرا اس نظم میں دیکھیے:
جس روز کاغذ ایجاد ہوا تھا
اعتبار اٹھ گیا تھا
لنڈی کوتل کی لالٹین، نثری نظموں کا پہلا مجموعہ ہے جو میں نے پڑھا ہے۔ آزاد نظمیں تو پڑھ رکھی تھیں لیکن نثری نظم پڑھنے کا پہلی بار اتفاق ہوا۔ دانشوروں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
فکری افلاس کا شکار
کورونا سے بچ بھی گئے تو
تاریخ میں مر جائیں گے
ان کی نظم ٹاک شو، تو بہت ہی سخت ہے۔ مگر وہ ایسے ہی ہیں۔ نشتر چبھوتے ہیں تو اس کے بعد اسے لٹو کی طرح گھماتے بھی ہیں۔ جنگوں کے روگ اس کتاب کا لاشعور ہیں۔ سجاد اظہر لکھتے ہیں:
سرحدیں سر مانگتی ہیں
اور اس کے بیچ پروان چڑھنے والی نسلیں
ایک پر امن گھر مانگتی ہیں
جنگوں کے آزار پر نوحہ تو لکھا گیا ہے مگر اس نوحے کو سجاد نے سرنڈر نہیں بننے دیا چنانچہ کشمیر کی تحریک حریت پر انہوں نے نظمیں لکھی ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پس منظر میں بھی انہوں نے خوب لکھا ہے۔
جب کتاب پڑھنا شروع کی تو ہمنگوے کی آئس برگ تھیوری کا لطف بھی دوبالا ہو گیا۔ یعنی بات اتنی لکھی جائے جو ضروری ہے۔ میرے بس میں ہو تو یہ تھیوری ہر اس کالم نگار اور مصنف کو پڑھائوں جن کی تحریر کراچی سے خیبر تک ناجائز تجاوزات کی صورت پھیلی ہوتی ہے۔ سجاد اظہر نے بھی بڑے اختصار کے ساتھ اور بڑی جامعیت کے ساتھ اپنی بات کہی ہے۔
دیباچے میں سجاد اظہر نے عہد موجود کا اے فیئر ول ٹو آرمز، لکھ دیا۔ کہتے ہیں: اندر جب انہونیوں کا خوف ہو گا تو باہر موجود دکانوں پر لالٹینیں نہیں بندوقیں ہی بکیں گی اور ہمارے روشن دانوں سے روشنی اور ہوا نہیں، بارود کا دھواں ہی آئے گا۔
ان کا دکھ یہ ہے کہ ایک وقت تھا لنڈی کوتل کی دکانوں پر جرمنی کی لالٹینیں بکا کرتی تھیں، پھر لالٹین کی جگہ بندو ق نے لے لی۔ ایک قاری کے طور پر میری ان کے خواب کے ساتھ سانجھ ہے کہ لنڈی کوتل اور اطراف کی دکانوں پر دوبارہ لالٹینوں کی روشنی لوٹ آئے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہمنگوئے نے لکھا تھا کہ اس دورانیے میں جنگ پر کچھ بھی اچھا اور سچا نہیں لکھا گیا۔ سچ صرف شاعری میں بیان کیا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعر اتنی جلدی گرفتار نہیں ہوتے جتنی جلدی نثر لکھنے والے ہو جاتے ہیں۔
سجاد اظہر نے بھی جنگ کا المیہ بیان کیا ہے اور ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہوں نے اسے نثر میں بیان نہیں کیا۔ نثری نظم کا سہارا لیا ہے۔